شبیر گُل
قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ وہ کھوٹے سکے یہی مسلم لیگی تھے جو بعد میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف میدان میں آئے۔ ڈکٹیڑ ایوب کے بی ڈی ممبر بنے۔ خواجہ آصف، خرم دستگیر انہی ناپاک لوگوں کی اولاد ہیں جن کی رگوں میں مسلم لیگ مخالف خون تھا جو ہمیشہ اسٹبلشمنٹ کا حصہ رہے،قائد کے افکار سے انکا کوئی تعلق نہ تھا۔
مسلم لیگ کی یہ تاریخ ہے کہ فاطمہ جناح کے ساتھ دغا کیااور ڈکٹیڑ ایوب کے لحاف میں لیگ کو دفن کر دیا۔ضیاءالحق نے اپنی آمریت کو جمہوری لبادہ پہنانے کے لئے مردہ لیگ کو آمریت کی ڈوز دی اور اندر سے جونیجو لیگ برآمد ہوئی۔مسلم لیگ جونیجو۔مسلم لیگ قیوم گروپ، مسلم لیگ چٹھہ گروپ، مسلم لیگ بشیر گروپ، مسلم لیگ نصراللہ گروپ، مسلم لیگ ن گروپ،مسلم لیگ ق گروپ۔ درجنوں لیگیں معرض وجود میں آئیں۔پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کاکردار انتہائی داغدار رہا۔ 1965 سے لیکر 1985 تک مسلم لیگ زمین کی عمیق گہرائیوں میں مدفون رہی، ضیاءالحق نے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالی، مجلس شوری اور پھر غیر جماعتی الیکشن کے ذریعے تمام منافق اور بی ڈی ممبرز کو اکٹھا کیا۔ غیر جماعتی اسمبلی کو جماعتی بنایا اور اندر سے مسلم لیگ نکالی جو اپنے افکار وکردار میں قائداعظم کے پاکستان کے برعکس رہی انکی لیڈر شپ نظریہ پاکستان اور اسلامی نظریات کے مخالف رہی۔پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جس کو اسکے دشمن اپنے ناپاک ارادوں سے ختم نہ کر سکے۔ خواجہ آصف جیسے مکروہ کردار اسکی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ ایجنسیاں ایسے غلیظ اور پلید لوگوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اقامہ رکھنے کے باوجود اسکی رکنیت معطل نہیں ہوئی،اس کا باپ بھی ایجنسیوں کا آدمی تھا۔یہ وہی گند ہے جو پاکستان اور ادراروں کے خلاف رہا۔فواد چوہدری نے خواجہ آصف کے نظریہ کی تائید کی ہے۔اس ارض پاک کے وسائل کی لوٹ مار اور کفار کے وفادار ایجنٹ بننے کی خاطر تو یہ لوگ ایک دوسرے سے بے پناہ اختلاف کرتے ہیں،ایک دوسرے کو چور ڈاکو اور نااہل کہ دیتے ہیں۔ اسلام دشمنی ، مغرب زدہ سوچ اور سیکولرزم میں یہ سب برابر اور ایک دوسرے کی تائیدکرتے ہیں کیونکہ ان سب کو انکے استعمار آقا نے ایجنڈا ایک ہی دیا ہے۔ان کفار کے ایجنٹوں کو اس کفریہ نظام جمہوریت سمیت اکھاڑ پھینکنا بطور مسلمان ہم سب پر فرض ہے۔پتہ نہیں کتنی مسلم لیگیں وجود میں آئیں، ہر ایک قائداعظم کے تصویر کے ساتھ کھڑا نظر آیالیکن قائداعظم کے بوٹ کا تسمہ بھی ثابت نہ ہوسکا۔قائداعظم کا ملک ہو اور غریب ہو ،سیاست دن امیر ہوں ، بیرون ملک اربوں روپے کی جائیدادوں کے مالک ہیں۔نظریہ پاکستان کی دھجیاں ا±ڑاتے ہوں لیکن کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔جرنیل انکو پروٹیک کرتے ہوں تو انکا علاج یہی ہے کہ انکو کسی بم دہماکے میں ا±ڑا دیا جائے۔مسلم لیگ بکاو¿ اور ضمیر فروشوں کا کلب رہی ہے،مسلم لیگی جب بھی بھونکے کا جماعت اسلامی پر بھونکے گا۔ مذہب پر بھونکے گا۔لبرل بننے کی کوشش کرے گا۔
پاکستان ایک تجربہ گاہ ہے ، ستر سال سے مجرموں کو اقتدار سونپا جارہا ہے جس کا حاصل ، کھایا، پیا ،گلاس توڑا، چار آنے ، رزلٹ صفر،پاکستان میں ڈکٹیٹروں نے اتنے تجربات کئے ہیں جس کی مثال نہیں اگر یہی تجربات معاشی میدان میں کئے جاتے تو 1960 جرمنی کو قرض دینے والا پاکستان ، آج یورپ جیسی ترقی کر چکا ہوتا۔ یہی تجربات ملک کو نظریاتی اسٹیٹ بنانے میں صرف کئے جاتے تو آج ملک اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہوتا۔ نظریاتی تشخص ہوتا، ہم ایک قوم ہوتے۔کشکول لئے ہم در در کی ٹہوکریں نہ کھاتے۔دہشت گردی اور لوٹ مار اور چوروں ل±ٹیروں سے مخفوظ ہوتا۔ نہ کوئی لنڈن میں بیمار ہوتا اور نہ تبدیلی کا جہوٹا ڈرامہ ہوتا۔ نہ ماڈل ٹاو¿ن، بلدیہ ٹاو¿ن، ساہیوال جیسے درد ناک سانخات رونما ہوتے۔
اخلاقی انخطاط نہ ہوتا۔ تعلم و تربیت کا فقدان نہ ہوتا۔انصاف کے اداروں میں بے انصافی نہ ہوتی
پاکستان میں آجکل مندر پر بہت بحث چل رہی ہے۔ جس میں وہ لوگ رائے زنی کر رہے ہیں جنہوں نے کبھی مسجد نہیں دیکھی۔وہ عالم دین کا کردار ادا کررہے ہیں
پاکستان میں لبرل طبقہ کو کچھ زیادہ ہی مڑوڑ اٹھ رہے ہیں،مندر کی تعمیر میں پی پی پی،ن لیگ، پی ٹی آئی یک زبان ہیں، یہ تینوں جماعتیں نہ تو نظریاتی ہیں اور نہ ہی ان میں اخلاقیات ہیں۔مذہب سے لگاو¿ رکھنے والے تمام لوگوں کو ان تینوں جماعتوں کی منافقت کی انتہاءدیکھیں، کے الیکٹریک ہو یا شوگر مافیا ، سب بڑے کریمنلز ان پارٹیوں کے ممبرز ہیں۔
سوائے جماعت اسلامی کے کوئی ایسی جرآت مند قیادت نہیں جو ان درندوں کا محاسبہ کرسکے۔یہ تینوں پارٹیاں مجرموں کی پناہ گائیں ہیں۔ کے الیکٹرک کے خلاف ایم کیو ایم اور ان تینوں پارٹیوں نے مال کھایا ہے۔ اسی لئے براک گروپ اور شوگر مافیا کے خلاف بولنے کی جرآت نہیں۔عوام کو ایسی کالے کرتوت والے عوام دشمنوں کو ووٹ نہیں دینا چاہئے۔یہ قومی مجرم ہیں۔ جنہوں نے گزشتہ ستر سال باپ دادا کی شکل میں اور ان انہی کی نسلیں ملک لوٹ رہی ہیں۔یہی چند لوگ پارٹیاں بدل بدل کر عوام کو لوٹتے آرہے ہیں۔عوام خود ہی ج±رم وار ہے جو بار بار انہی مجرموں کو مسلط کرتے ہیں۔ جنرل باجوہ فرما رہے تہے کہ پی آئی اے کسی دور میں نمبر ون ہوا کرتی تھی تو جناب باجوہ صاحب پچاس سال تو آئیر مارشل اسکے سربراہ رہے چالیس سال جرنیل سربراہ رہے۔ وہ کوئی تبدیلی کیوں نہ لاسکے۔
اب چونکہ آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ اسکا علاج گھسے، پٹے ، چوروں ، اور ڈاکوو¿ں کے پاس نہیں۔ اور نہ ی تبدیلی معاف یا کے پاس ہے۔ تبدیلی چوروں اور راہزن لوگوں کے زریعے نہیں آیا کرتی۔ قوم نے تجربات دیکھ لئے ، ایک بار جماعت اسلامی کوآزما کر دیکھ لیں۔ جس کا کردار ہمیشہ ا±جلا اور بے داغ رہا ہے۔
کرپٹ عناصر ، کرپٹ بیوروکریٹس، کرپٹ ججز، کرپٹ انتظامیہ اور معاشرے علاج صرف جماعت اسلامی ہے جو مجرموں کو کبھی زندہ سلامت نہیں چہوڑے گئ۔ یہی ملک کی تقدیر کے لئے بہتر ہے۔جماعت اسلامی نے اتحادی سیاست میں اپنا ووٹ بینک متاثر کیا ہے۔ اسے اگریسو سیاست کرنا ہوگی۔
مسلم لیگی منافقوں کی وجہ سے رائٹ ونگ کا ووٹ ہیجانی کیفیت کا شکار ہے۔میرے خیال میں سرخ اور سبز کا ٹکراو¿ رھنا چائیے۔ تاکہ منافقوں کو پنپنے کا موقع نہ مل سکے۔ اور نہ ہی رائٹ ونگ کا ووٹر کنفیوز ہو۔ جماعت اسلامی کو رائٹ ونگ ووٹر کو یکجا کرنا چائیے۔تاکہ خواجہ آصف ، فواد چوہدری ، احسن اقبال جیسی دین دشمن لابی کے مکروہ چہرے پارلیمنٹ میں نظر نہ آسکیں۔
٭٭٭