دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد!!!

0
264
جاوید رانا

جاوید رانا

قارئین کرام گذشتہ ہفتے کے ہمارے کالم ”پاکستان پر پراکسی وار“ کو کافی پسند کیا گیا تھا، نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر ممالک سے بھی قارئین نے ہمیں فیس بک پر مطالعہ کے بعد ہمارے کالم کو سراہتے ہوئے مزید تحریر کرنے کی فرمائش کی تھی ہمارا ارادہ بھی یہی تھا کہ اس حوالہ سے خصوصاً کراچی میں گزشتہ ہفتہ ایجنسیز کی اطلاع پر گرفتار ہونےوالے” را“ کے ایجنٹوں کے انکشافات کے حوالے سے پاکستان دشمنوں کے منصوبوں اور ناپاک عزائم کو افشاءکیا جائے، لیکن بعض اوقات مقامی طور پر کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ان کے حوالے سے اظہار خیال ترجیح بن جاتا ہے۔ حکیم الامت حضرت اقبالؒ نے جاوید نامہ میں اپنی نظم میں علمائے سُو کے حوالے سے ارشاد فرمایا!
دین کافر فکر و تدبیر جہاد۔ دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اس زریں قول کی عملی تفسیر برصغیر پاک و ہند میں تو بے بہا نظر آتی ہے۔ مثالیں دی جائیں تو کالم ان مثالوں میں ہی ختم ہو جائے کہ اپنے مفاد، لالچ اور برتری کی ہوس میں دین کے یہ ٹھیکیدار خانہ خدا، مذہبی مدرسوں کو گندی سیاست اور خود غرضی کیلئے استعمال کرتے ہیں بلکہ حقیقی علمائ، مفتیان کو بھی اپنی اغراض کی بھینٹ چڑھا کر نہ صرف اللہ اور اس کے نبیﷺ کے احکامات اور ارشادات سے عملی طور پر منکر ہوتے ہیں بلکہ امت کیلئے بھی تفرقہ، شورش اور دین سے بیزاری (نعوذ باللہ) کا سبب بنتے ہیں بلکہ اپنے کرتوتوں سے دیگر مذاہب کے افراد کو دین پر انگشت نمائی کا موقعہ فراہم کرتے ہیں۔ دیار غیر میں خصوصاً غیر اسلامی و مغربی ممالک میں مساجد، مدارس و مذہبی اداروں کا مقصد جہاں ایک جانب دین مبین کی آفاقیت کا ابلاغ ہوتا ہے وہیں امت مسلمہ کے مثبت کردار اور عمل، اتحاد و یگانگت، نیز نئی نسل کی دین سے آگاہی و عمل میں رہنمائی ہوتا ہے۔ یہاں شکاگو میں بھی امت مسلمہ کیلئے بیشتر مساجد بمعہ مرکزی جامعہ مسجد اور دینی ادارے اسی مقصد کیلئے قائم ہیں۔ مسلمانوں کو عقائد و فقہ کی بنیاد پر تقسیم کر کے مساجد کا قیام اور اپنے نظرئیے کا پرچار گو ایک معمول ہے اور اسے منطقی طور پر سمجھا بھی جا سکتا ہے لیکن کچھ مذہبی ٹھیکیدار اپنی غرض، لالچ اور مال بٹورنے کے چکر میں نہ صرف ان مقدس جگہوں کو تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں بلکہ جو لوگ دین کی حقیقی خدمت میں مصروف ہیں، ان کی بیخ کنی، مخالفت، سازش اور اکھاڑ پچھاڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی افراد کیلئے علامہ اقبالؒ نے دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد، فرمایا تھا۔ مذہبی لبادوں میں لِپٹے ہوئے دو افراد یہاں شکاگو کے منظر نامے میں سرگرم ہیں جو اپنی منفی و منفعتی سرگرمیوں سے مذہب اور مذہبی سرگرمیوں کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے کام ایسے ہیں جو نہ دینی حوالے سے مستحسن ہیں اور نہ ہی سماجی حوالے سے امت کے حق میں قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ ان کی حرکات غیر اسلامی کمیونٹیز کے سامنے ہماری مذہبی، اخلاقی و سماجی اقدار کی منفی تصویر کا موجب ہیں۔
ہم نے بارہا اس معاملے پر لکھنے کا سوچا لیکن محض اس خیال سے گریز کیا کہ مذہبی معاملات میں افتراق و انتشار نہ ہوں، تاہم مجبوراً اب سطور کے لکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا کہ امت کے مفاد میں یہ لازمی امر بنتا ہے۔
قارئین کو شاید یہ یاد ہو کہ بدنام زمانہ فراڈ کے معاملے میں ایک مفتی و امام نیز ذبیحہ حلال کی تصدیق کیلئے دوکانداروں سے ماہانہ لینے والے مذہبی رہنما کے فتوے نے ہزاروں افراد کی کمائی کو ڈبو دیا تھا اور متاثرین نے سلمان ابراہیم کےساتھ اس رہنما کو بددعائیں دیں اور اپنی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ ہمارے مرحوم رفیق و دانشور مرحوم افتخار نسیم (افتی نسیم) نے ”لالچی کے گاﺅں میں فراڈیا بھوکا نہیں رہ سکتا“ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جس میں سلمان ابراہیم کے ساتھ مفتی موصوف کی حرکات و اعانت کو بھی اُجاگر کیا تھا۔ موصوف کے حوالے سے یہ بات بھی عام ہے کہ وہ اپنی متفعت کیلئے اپنے دینی ادارے کے نام پر چندوں، عطیات، زکوٰة او دیگر مدات کے حوالے کےساتھ اپنی فاﺅنڈیشن کیلئے فنڈریزنگ کر کے بھی پیسے بناتے ہیں اور خیر سے دو بلڈنگوں کے مالک ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کی پہلی بلڈنگ کی حتمی ادائیگی سلمان ابراہیم نے کی تھی جبکہ اپنے انویسٹمنٹ کے دھندے میں وہ انہیں ہر ماہ خطیر رقم بھی دیتا تھا۔ حال ہی میں موصوف نے اپنے بورڈ میں نامزد کردہ جید مفتیان و علمائے کرام کو موقوف کر کے اپنے بیٹوں اور داماد کو نامزد کر دیا ہے تاکہ ذاتی مفادات و مقاصد کے حصول میں کوئی پوچھ گچھ اور رکاوٹ نہ ہو۔ مذہب کی آڑ میں مفادات کے حصول اور مال بٹورنے کا یہ عمل کسی بھی طرح عین دین نہیں ہے۔
مفادات اور مال بٹورنے کا یہ کھیل شکاگو کی مرکزی جامع مسجد میں بھی جاری ہے اور اس کے سرخیل گزشتہ 25 سال سے تبلیغی جماعت کے نظام گروپ کے شکاگو کی دس مساجد میں تبلیغی قیادت کے دعویدار و امیر ہیں۔ موصوف کے حوالے سے یہ حقائق بھی موجود ہیں کہ تبلیغی جماعت کے مقامی بینک میں 4 ملین ڈالرز جمع ہیں لیکن یہ عقدہ نہیں کُھل سکا ہے کہ اس رقم پر جو سُود بنتا ہے وہ کہاں جاتا ہے۔ آیا یہ غریبوں کو جاتا ہے۔ بینک سے وصول نہیں کیا جاتا ہے یا کسی کی جیب بھرتی ہے مسجد میں بورڈ آف ڈائریکٹرز اور صدر ہوتے ہوئے بھی امیر موصوف کی مرضی چلتی ہے۔ مسجد کی توسیع کا کام گزشتہ چار سال سے کرنے کیلئے ملینز ڈالر کے چندے اور عطیات جمع ہونے کے باوجود حالت زار پاکستان یا بھارت کے کسی چھوٹے سے گاﺅں یا محلے کی مسجد سے بھی بدتر ہیں۔ وضو خانہ، بیت الخلائ، مسجد کی قالینی صفوں، ایئر کنڈیشنرز و دیگر معامالت کی بدترین حالت پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ مسجد کے صدر وحید الحق اور انتظامیہ کی موجودگی کے باوجود امیر موصوف کا ہر معاملہ میں دخل ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے سبکدوش کر دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں مسجد کے 20 سال سے امام و عالم دین قاری عبدالمنان اور خادم عبد الناصر کو محض ایک فون کر کے سبکدوش کر دیا گیا، حالانکہ قانون کے مطابق مسجد سے جو 501(c)3 کے تحت رجسٹرڈ ہے کسی کو بھی بورڈ کی دو تہائی اکثریت کی منظوری اور ایک ماہ کے نوٹس کے بغیر برطرف نہیں کیا جاسکتا مگر یہاں گنگا اُلٹی بہہ رہی ہے۔ شاید ہمارے اس کالم سے متعلقہ ذمہ داروں، اداروں اور کمیونٹی رہنماﺅں کی جانب سے بہتری کی صورت سامنے آئے۔ ہم اپنے قارئین کی معلومات و آگاہی کیلئے معروف ہیں اور شواہد و دستاویزات کی صورت میں حقائق پہنچاتے رہیں گے۔ فسادی ملاﺅں کا کھیل درست نہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here