قومیں اپنے اخلاق سے بنتی ہیں!!!

0
128
جاوید رانا

قارئین کرام! ہمارے گزشتہ کالم پر آپ کی تحسین و تعریف کیلئے اظہار تشکر لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہماری مقتدرہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور ہوش کے ناخن لینے پر قطعی تیار نہیں، وہی کچھ ہوا جو فیصلہ ساز چاہتے تھے۔ اکثریت سے عوام کے چاہنے والوں کو اقلیت گردانا گیا اور کٹھ پتلیوں کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کر دیا گیا۔ جو کچھ ہوا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، ہماری اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو رب کریم اس ماہ مبارک کی تمام رحمتوں برکتوں کے حصول کی سعادت سے نوازے، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، سیاسی و حکومتی و دیگر طبقات کو وطن عزیز کے حوالے سے مثبت سوچ ، عمل اور اخلاقیات کی دولت سے نوازنے کی دعا کرتے ہیں کہ اخلاقیات ہی قوموں کی تعمیر کرتی ہیں۔ حوالے کے طور پر ہم ایک مثالی حقیقت آپ کے علم میں لانا چاہتے ہیں۔ دوڑ کے عالمی مقابلے میں کینیا کا ایتھلیٹ عبدالمطیع فنشنگ لائن سے چند فٹ فاصلے پر سب سے آگے تھا، وہ سمجھا کہ وہ دوڑ جیت چکا ہے، اس کے بالکل پیچھے اسپین کا فرنینڈز نو دوسری پوزیشن پر تھا جب اس نے دیکھا کہ عبدالمطیع رُک گیا ہے تو اس نے آواز دی ”دوڑو” ابھی فنش لائن کراس نہیں ہوئی۔ عبدالمطیع اس کی زبان سے ناواقف ہونے کے سبب بالکل نہ سمجھ سکا۔ فرنینڈزنو کیلئے بہترین موقع تھا کہ عبدالمطیع سے آگے نکل کر مقابلہ جیت لیتا مگر اس نے عجیب فیصلہ کیا، عبدالمطیع کو دھکا دے کر فنش لائن سے پار کروا دیا۔ تماشائی فرنینڈز کی اس اسپورٹس مین اسپرٹ کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ ایک صحافی نے جب اس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ فرنینڈز نے جواب دیا ”میرا خواب ہے کہ ہم ایک ایسا معاشرہ قائم کریں جہاں کوئی دوسرے کو اس لیے دھکا دے تاکہ وہ جیت سکے”۔ صحافی نے پوچھا، مگر تم نے کینیا کے کھلاڑی کو کیوں جیتنے دیا۔ فرنینڈز نے جواب دیا میں نے اسے جیتنے نہیں دیا وہ ویسے ہی جیت رہا تھا۔ یہ دوڑ اسی کی تھی، صحافی نے اصرار کیا، مگر تم یہ دوڑ جیت سکتے تھے۔ فرنینڈز نے صحافی کی طرف دیکھا اور بولا، اس جیت کا کیا میرٹ ہوتا؟ اس میڈل کی کیا عزت ہوتی؟ میری قوم میرے بارے میں کیا سوچتی؟ قومیں ایسے ہی برباد نہیں ہوتیں ان کی غیرت مر چکی ہوتی ہے۔ اسپینش ایتھلیٹ فرنینڈز کے کردار اور اس کے الفاظ کی روشنی میں اگر ہم اپنے معاشرے اور سیاست کے قومی کھیل کا جائزہ لیں تو ہمیں حقیقتاً یہ نظر آتا ہے کہ ہماری قوم بشمول ہر شعبہ و قائدین قومی تباہی و بربادی کے بھنور میں پھنسے ہوئے اور اپنے مفاد و غرض کی خاطر دوسرے کو دھکا اس کے جیتنے کیلئے نہیں بلکہ راہ کا روڑہ سمجھ کر دھکیلنے اور جائز و ناجائز سبقت کے حصول میں متحرک و فعال ہے۔ ہمارا یہ استدلال محض سنی سنائی یا کسی فرد، جماعت، شعبے سے مخاصمت کی بناء پر ہر گز نہیں، مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ہے۔ ریاست، سیاست، تجارت، حکومت، معیشت سے لے کر ہر جگہ اخلاقیات سے عاری معکوس دوڑیں ہی لگی ہوئی ہیں اور قوم و ملک کی بگاڑ کا سبب ہیں۔
ماضی کے دھندلکوں میں جانے سے گریز کرتے ہوئے حالیہ سیاست و ریاست کے کھیل پر ہی نظر ڈالیں تو انتشار و تقسیم کے سوائے کوئی صورت بہتری کی نظر نہیں آتی ہے۔ انتخابات کے نام پر جو ڈھکوسلہ بازی ہوئی ہے، عوام کے مینڈیٹ کو مسترد کرتے ہوئے جس طرح ناحقوں کو اقتدار سے نوازا گیا ہے، اخلاقیات و میرٹ کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں، صدر مملکت، وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ و گورنرز کی تفویض و بندر بانٹ کی گئی وہ کسی بھی طرح نہ ملک کے حق میں ہے نہ ہی عوام کیلئے قابل قبول ہے۔ ہر شعبہ عدم استحکام اور بے یقینی کا شکار ہے اور فلاح و خوشحالی کی کوئی امید نہیں۔ عوام کی نمائندگی کے دعویدار ایوانوں میں ہوں یا حکومتی و ریاستی ذمہ دار یا قانون و آئین کے پاسدار شعور کی جگہ شور کو اپناتے اور اسے اپنی کامیابی گردانتے ہیں، نتیجہ یہ کہ دن بہ دن حالات میں مزید بگاڑ آرہا ہے۔ افسوس کہ ہمارے جتنے بھی انسٹی ٹیوشنز ہیں اپنے دائرہ کار سے گریز کر کے دوسرے معاملات میں دخل اندازی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور ملک کی خوشحالی و ترقی کی راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں۔ یہ صورتحال ملک کی درماندگی کا سبب ہی نہیں بنتے بیرونی و عالمی ممالک، قوتوں اور اداروں کے سامنے بھی تاخیر و منفی تاثر کا سبب بنتے ہیں۔
ہمارا مقصد کبھی بھی کسی قوت، ادارے، جماعت یا شعبہ پر بدظنی یا ذاتی مخاصمت نہیں رہا، البتہ اپنی دھرتی ماں کی سلامتی، خوشحالی، درستگی اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اظہار کے ساتھ عالمی منظر نامے میں وطن عزیز کا مثبت تاثر برقرار ہونا ہے اگر تمام قومی و معاشی، سیاسی ادارے اور ذمہ داران اپنے دائرہ کار میں اخلاقیات و مثالیت کے مطابق رہیں تو پاکستان کی خوشحالی، سالمیت و ترقی کو کوئی طاقت نہیں روک سکتا کہ میرا وطن مملکت خداداد ہے اور 27 ویں شب رمضان المبارک میں معرض وجود میں آیا ہے اور انشاء اللہ تا قیامت قائم و دائم رہے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here