میرا پورا خاندان امریکہ کی امیگریشن لے چکا تھا میں پاکستان میں تھا کیونکہ مجھے وہاں سیاست کرنا تھی میں نے ڈاکٹری کرنے کے بعد کلینک کھول لیا، اس ارادے کے ساتھ کہ دُکھی انسانیت کی خدمت کروں گا، غریب بیمار مریضوں کی دعائیں لوں گا ،روزنہ سو سے زائد مریض دیکھتا، کئی غریب مریضوں سے فیس لینے کی بجائے دوائی بھی پلے سے دے دیتا، رزق تو مقدر اور کوشش کا ہے پر وہاں رہ کر سیاست میں بھی حصہ لینے کا اردہ تھا تاکہ اپنے علاقے کی بھلائی کے لیے کوئی کردار ادا کر سکوں کیونکہ شروع سے ہی تربیت اس نہج پر ہوئی تھی بچپن سے تقریری مقابلوں میں حصہ لیتا رہا، پڑھائی میں بھی اچھا تھا ،لہٰذا کلاس انچارج مانیٹر بنا دیتا، مجھے گلی محلے میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا، میری عمر کے بچوں کے والدین میری مثالیں دے کر کہتے کہ اس کے جیسا بچہ بنو۔ گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول جو اس وقت صرف مڈل سکول تھا، میں میرے لیے ایک سپیشل چیئر کا انتظام کیا گیاتھا جس پر میرا نام لکھا ہوتا تھا کسی طالب علم کو اس پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، میں اپنی تمام تقریریں اسی کرسی پر بیٹھ کر یاد کیا کرتا، مجھے فخر ضلع ساہیوال (اس وقت میرا شہر ضلع ساہیوال کی ایک سب تحصیل ہوا کرتا تھا بعد میں اوکاڑہ ضلع بنا )کے نام سے یاد کیا جاتا تھا کیونکہ میں ہر سال تقریری مقابلے میں پہلے یا دوسرے انعام کی ٹرافی لیکر آتا تھا جسے شہر کے تمام اسکولوں میں میرے ساتھ بھیجوایا جاتا اورساتھ میں میری جیتی ہوئی تقریر بھی کروائی جاتی جہاں سکول کی ہیڈ مسٹرس یا ہیڈ ماسٹر میری تقریر اپنے بچوں کو سنوا کر سند امتیاز کے ساتھ ایک عدد تحفہ بھی دیتا سکول کی بزم ادب کا جنرل سیکریٹری ہونے کے ناطے ہر پروگرام کو کنڈکٹ کرنے کا شرف بھی مجھے ہی حاصل ہوتا۔ کالج گیا تو وہاں بھی مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کالج کے مجلہ کا الیکٹڈ آڈیٹر بن گیا مضمون نویسی اور شاعری کی طرف رجحان بھی یہیں سے شروع ہوا آواز میں گھن گرج تھی لہٰذا نیشنل کیڈٹ کور کا لیڈر مقرر کر دیا گیا میرے کاشنز سے پریڈ حرکت کرتی ،کالج ہاکی ٹیم کا کیپٹن بنا ،اس کے علاوہ پڑھائی میں بھی میرے تمام طالب علم ساتھیوں، اساتذہ اکرام اور پرنسپل صاحب کو قوی اُمید تھی کی اس دفعہ بورڈ میں پوزیشن ہمارے کالج کی ہوگی لہٰذا وہ مجھے خاص توجہ سے پڑھاتے کالج کے بعد گھر جانے کی اجازت نہیں تھی مجھے کالج کے پاس ہی میں ہزارہ سے آئے بیالوجی کے ٹیچر کے ساتھ رہنے کی جگہ دے دی گئی تھی جہاں صبح دوپہر اور شام کے کھانے کا بندوبست تھا، بیالوجی کیمسڑی فزکس اور انگلش کے اساتذہ میری رہنمائی کے لیے موجود رہتے ، پرنسپل صاحب کی خاص ہدایت تھی کہ کسی بھی چیز کمی نہ ہو اوراگر رہنمائی کی ضرورت ہو تو بہم انتظام کیا جائے۔ ایف ایس سی کے بعد میرے سمیت کالج کے تمام دوست آرمی میں جانے کیلیے آئی ایس ایس بی کا امتحان دینے گوجرانوالہ کینٹ چلے گئے سب پاس ہو کر کاکول چلے گئے پھر میں اوور کلیور ہونے کی وجہ سے ڈیفرڈ ہو گیا ،یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی میری شہرت وہاں پہنچ چکی تھی لہزا جمیعت اور انجمن طلبا اسلام کے ناظمین نے اپنی طرف کھینچنے کی بہت کوشش کی میں ایک اچھا مقرر تھا وہ جانتے تھے کہ یہ ایک بنا بنایا لیڈر ہے۔ مختصر عرصہ تک اے ٹی آئی کے بڑوں میں اٹھنا بیٹھنا بھی رہا مگر طبیعت مائل نہ ہو سکی ،ان کے کچھ اقدامات نے مجھے ان دونوں جماعتوں کے مدمقابل لا کھڑا کیا ،سیاست میں منافقت کو وہیں پر رکھ لیا اور وہیں سے تہیا کر لیا تھا کہ اگر سیاست کرنی ہے تو کیچڑ میں کنول کی طرح رہنا ہے ،پڑھائی مکمل ہونے کے بعد عملی دنیا میں قدم رلھنے پر معلومات میں اضافہ ہوا کہ کہیں فیصلہ غلط تو نہیں کر لیا پر ڈٹا رہا پورا خاندان ہجرت کر کے امریکہ آ گیا تھا مگر میں وہیں تھا اپنے پیارے ملک میں دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کیونکہ والدہ کی چالیس سال کی عمر میں دل کے عارضہ کی وجہ سے میو ہسپتال لاہور میں وفات پر یہی سوچا تھا کہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کے دکھوں کا مداوا کروں گا ادھر والد صاحب زور دیتے کہ بیٹے یہاں امریکہ آ کر بھی اپنا شوق پورا کیا جا سکتا ہے پاکستان میں بھڑیے بستے ہیں مجھے تمہاری طبیعت کا علم ہے وہاں کوئی بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے والد صاحب نے اعلی تعلیم کے بہانے بلا لیا اور پھر شادی کی بیڑی بھی ڈال دی فکر معاش اور بچوں کے چکر میں یہیں کا ہو کر رہ گیا جس کا مجھے اکثر افسوس رہتا تھا مگر آج اسلام آباد میں نہتے سیاسی ورکروں کی سرعام ہلاکتوں کو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے مرحوم و مغفور والد محترم کے الفاظ یاد آگئے بیٹا پاکستان بھڑیوں کا ملک ہے وہاں سے جتنی جلدی ہو سکے نکل لو تمہارے جیسا بندہ وہاں مس فٹ ہے میں بھی باپ ہوں سوچیں ماں باپ کیسے اپنے بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں کتنی محنت لگتی ہے ایک چھوٹے سے بچے کوپال پوس کر بڑا کرنے میں اسے پڑھانے میں اسے اچھی تربیت دینے میں اسے کامیاب کروانے میں اسلام آباد میں شہید ہونے والے نوجوانوں میں کتنے میرے جیسے زہین فطین اور قابل نوجوان ہونگے جن کے والدین نے ان کی اچھی زندگی کے لیے دن رات کوششیں کی ہونگی دعائیں مانگی ہونگی انہیں پاکستان کی سیاست کے خارزار سے بچانے کے لیے باہر کے ملکوں میں چلے جانے کے مشورے تک دئیے ہوں گے بالکل میرے بہشتی والد کی طرح۔ اللہ سبحان و تعالی سے شہیدوں کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ ایک دعا اور بھی ہے کہ باری تعالی تو ان بھیڑیوں سے بھی نجات دلوا تاکہ میرے پیارے ملک کے نواجوان اپنی بھرپور جوانیاں اپنے ملک میں اپنے لوگوں کے بیچ ہنسی خوشی گزار سکیں۔
٭٭٭