لکھنے والوں کا یوم مارچ!!!

0
36
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

لکھنے والوں کا آج یوم منایا جارہاہے آپ سب اہل بزم کو سید کاظم رضا نقوی کی جانب سے بہت بہت مبارک ہو یوں تو میں ایک عام سا لکھنے والا ہوں لیکن اس لکھنے کا سہرا احتشام رضا کاظمی (نیویارک)اور عارف افضال عثمانی (نیوجرسی)صاحب کے سر جاتا ہے جب پندرہ برس انہوں نے اپنے اخبار ایشیا ٹریبون میں کالم لگانا شروع کیا پذیرائی ملی اور میں اس طرح لکھاری بن گیا ۔اس کا ایک فائدہ ہوا کہ خاص و عام کمیونٹی کے اکثر لوگ پہچاننے لگے اس سے قبل اس ملک میں ایک گمنام خانگی زندگی گزر رہی تھی !لکھاری کوئی اداکار نہیں ہوتا عموما اور نہ گلوکار لیکن اس کا قلم اور سوچ اس کی عکاس ہوا کرتی ہے اور وہ نام کے ساتھ تصویر اخبار میں لگائے مفت میں مشہور ہوجاتا ہے ۔ آجکل مجیب لودھی صاحب کے اخبا ر پاکستان نیوز (نیویارک)میں کالم نگاری کرتا ہوں اور جس موضوع پر لکھنا پسند ہے وہ علوم فلکیات اور حالات حاضرہ پر تجزئیے و تبصرے ہوتے ہیں ۔کچھ مزاح پر بھی تک بندیاں کرنی شروع کی ہیں اور کوشش ہے مکمل طور پر لطائف اور یک سطری جملے لکھوں کیونکہ آجکل کے دور میں ضروری ہوگیا ہے کہ لوگوں کو ہنسایا جائے اور خود بھی ہنسا جائے صحت کیلئے اچھا ہے ۔انور مقصود ، اشفاق احمد پسند ہیں ان کو پڑھا اور سنا کوشش ہوتی ہے ہر لکھنے والے اور شاعر سے کچھ سیکھوں ۔میری جانب سے تمام شعرا ، ادیب ،دانشور اور صحافیوں کو مبارک باد وہ ایک اہم فریضہ نبھا رہے ہیں قلم ایک طاقت ہے اور اس دور میں لکھنے والا قابل ستائش ہے کیوں یہ سب لکھنے والے جانتے ہیں ۔دعا ہے اللہ پاک آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے آمین، اور اب ای حکایت آپ کی خدمت میں پڑھئیے لطف آئیگا ۔
آسمان کی بلندی ! ایک دن پروفیسر صاحب سے جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا ماسٹر صاحب! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا۔ دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے۔ بچے کا اگلا سوال تھا کیسے؟ پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالااوراسکیکھوکھے کی دیوار پر دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں پہلی لکیر پر محنت محنت اور محنت لکھا دوسری لکیر پر ایمانداری ایمانداری اور ایمانداری لکھا
اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر )Skill( لکھا۔ بچہ پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا پروفیسر یہ لکھنے کے بعد بچے کی طرف مڑا اور بولا: ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں پہلا زینہ محنت ہے آپ جو بھی ہیں آپ اگر صبح دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان فیکٹری دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے، آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ پروفیسر نے کہا ہمارے اردگرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں یہ محنت نہیں کرتے آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں. اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے
ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے
وعدے کی پابندی
جھوٹ سے نفرت
زبان پر قائم رہنا اور
اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔
آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو
وعدہ کرو تو پورا کرو
جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو
زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور
ہمیشہ اپنی غلطی کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو
تم ایماندار ہو جائو گے
کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے،آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں. آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے،اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے،آپ کا پروفیشنل ازم آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا،آپ سو فیصد کامیاب ہو جائو گے،پروفیسر نے بچے کو بتایا۔
لیکن یہ یاد رکھو ہنر پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیںلیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔
آپ کو محنت ہی سے سٹارٹ لینا ہو گا
ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا’
آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا۔
پروفیسر نے بچے کو بتایا۔
“میں نے دنیا کے بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا
کیوں؟
کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی’
اور میں نے دنیا کے بے شمار بیہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا-
تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو
تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے۔(منقول)
*شیخ عرب کی مولانا ابوالجلال ندوی کو نصیحتیں*
مولانا ابوالجلال ندوی رحم اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مولانا شیخ محمد عرب نے ادیب ہونے کے باوجود، مجھے متنبی سے نفرت دلادی۔ اس کے بارے میں ان کا قول تھا کہ “عجمی رقاصہ ہے کہ عربی رنگ ڈھنگ کے ساتھ محوِ رقص ہے”۔ فقہ میں ان کا سبق، جو مجھے آج تک یاد ہے، وہ یہ تھا کہ عقائد میں امام احمد بن حنبل، عبادات میں امام مالک، معاملات میں امام ابوحنیفہ ایک دوسرے سے بڑھ گئے ہیں۔ امام شافعی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ وہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا مرکب ہیں اور اب یہی میرا مسلک ہے۔ معاملات میں حنفی ہوں، عبادات میں مالکی اور عقائد میں حنبلی۔ قرآن مجید کے بارے میں جو درس انہوں نے دیا تھا، وہ میری زندگی کا نچوڑ ہے۔ پہلے قرآن پڑھو، پھر تفسیر، اور تفسیر اس لیے کہ تم کو معلوم ہوجائے کہ تم نے غلطی نہیں کی ہے۔ در منثور امام سیوطی کی مشہور کتاب سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی تاکید کی، مگر میں بھی ہوشیار نہیں رہا۔ *در منثور کی خصوصیت یہ ہے کہ حدیث بیان کرتے ہوئے محدثین کے نام (الا ما شا اللہ) ان کے سِنینِ وفات کی ترتیب سے دیتے ہیں، اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ روایات میں کیا ارتقا ہوا؟ اس لیے مولانا کی ہدایت کے باوجود میں نے در منثور سے احتیاط نہیں کی۔ جو محقق ہے، وہ اس سے موتی نکالے گا اور جو محقق نہیں ہے، وہ ضرور بہک جائے گا۔* مولانا فوز الکبیر، اتقان، تفسیر ابنِ کثیر کے مطالعہ کی ہدایت کیا کرتے تھے اور ان کے مطالعہ کے بعد ابنِ جریر کو دیکھنے کا مشورہ دیتے تھے۔
اعلام القرآن/صفحہ: ٩٣/
امید ہے قارئین کو آج کا کالم ہٹ کر ہے کچھ پسند آیا ہوگا خوش رہئیے خوشیاں بانٹئیے اور زندگی کو سادہ و آسان بنائیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here