ظلم بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے!!!

0
89

اس وقت جب ہم یہ کالم تحریر کر رہے ہیں کرۂ ارض، فلسطین اسرائیل جنگ کے اس موڑ پر پہنچ چکا ہے جس میں امن کے قیام کیلئے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ دنیا کے سب سے زیادہ محفوظ حربی و سیکیورٹی نظام رکھنے والے اسرائیل کو جہادی تنظیم حماس کے ہاتھوں ذلت و رسوائی کی بدترین صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہفتہ کے روز اسرائیل کے محفوظ حصار کو تہس نہس کر کے ہزاروں راکٹوں کی برسات، سیکیورٹی و کنٹرول کے پرخچے اُڑا کر شاہینوں کی طرح جیپوں اور موٹر سائیکلوں پر حماس نے اسرائیل کی تباہی پر ساری دنیا کو ششدر کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ حماس کا یہ اقدام اسرائیل کے تمام تر دعوئوں اور احساس برتری کی دھجیاں اُڑا کر اسے گھٹنوں پر لے آیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے رد عمل کے طور پر نہ صرف طویل جنگ کا اعلان کر دیا ہے بلکہ غزہ کے عوام کی بجلی، پانی و غذائی پابندی کیساتھ نہتے عوام پر زمینی، فضائی حملوں سے تباہی و بربادی کی انتہاء کر رکھی ہے۔ اُدھر حماس نے بھی خون کے آخری قطرے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے اور عرب اسرائیل جنگ میں فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل سے واپس لینے، مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا واضح عندیہ دیا ہے۔ اسرائیل فلسطین کی اس محاذ آرائی نے عالمی منظر نامے کو بھی واضح طور پر تقسیم کر دیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے حماس کو حملہ آور قرار دیتے ہوئے جدید ترین امریکی جنگی بیڑہ اور فضائی کُمک اسرائیل پہنچا دی ہے، مغربی ممالک بھی اسرایئل کی حمایت میں متحرک ہیں تو دوسری جانب روس، چین، ایران حماس کے طرفدار اور نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کیخلاف متحد نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کا مظہر اتوار کو سلامتی کونسل کے اجلاس کی صورتحال کے حوالے سے سامنے آیا جب طویل اجلاس کے باوجود صورتحال پر قابو پانے کیلئے کوئی قرارداد منظور نہیں کی جا سکی۔ امریکہ کا مطمع نظر یہ تھا کہ فلسطین اور حماس کو حملہ آور قرار دے کر اسرائیل کے حق میں قرارداد لائی جائے لیکن متفقہ توثیق نہ ہوئی جس پر امریکی نمائندے کا شدید رد عمل سامنے آیا۔ یہ صورتحال تو سلامتی کونسل میں ہوئی، او آئی سی نے قرارداد پیش کرتے ہوئے اسرائیل کے فلسطینی عوام پر مظالم اور مقبوضہ علاقوں کو خالی کرنے کی متفقہ قرارداد پاس کی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ کے باجگزار اور فرمانبردار متعدد ممالک کسی ایسے اقدام کی حمایت کر سکتے ہیں جو امریکی مفاد میں نہ ہو۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے کہ محاذ آرائی کی شدت میں کوئی کمی آئے۔ ایک جانب حماس کیخلاف امریکہ اسرائیل کی مدد کو آگیا ہے مغربی ممالک حمایت میں ہیں تو دوسری جانب فلسطین کے حق میں روس، چین و ایران نظر آتے ہیں۔ مسلم اُمہ خاموش اور مصلحت اندیشی کا شکار ہے، البتہ حزب اللہ کا اشتراک اور حماس کا پُختہ اور واضح عملی کردار اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک اقوام متحدہ کی قرارداد 242 کے مطابق دو آزاد ریاستوں کا قیام عمل میں نہیں آجاتا۔ گزشتہ 76 برسوں سے فلسطینی عوام پر مظالم، ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کرنے اور خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والے اسرائیل کو جس طرح مکمل حربی مہارت سے حماس نے ناکامی سے دوچار کیا ہے خود اسرائیلی وزیراعظم نے اسے 9/11 اور پرل ہاربر سے تشبیہہ دے کر اور اسرائیل کی تاریخ کی بدترین جنگ قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کیا ہے۔ مجاہدین کے جنوبی اسرائیل پر راکٹوں کی بارش، پیرا گلائیڈرز سے ان کے مضبوط حصار کو تہس نہس کرنے اور ان کی مضبوط ملٹری طاقت کو زیر کرنے، اعلیٰ ترین کمانڈروں کو ہلاک و گرفتار کرنے کا جرأت مندانہ کردار ظاہر کرتا ہے کہ حق کی خاطر لڑنے والوں کو کسی مضبوط فوج، جدید اسلحے یا نیوکلیئر قوت کی ضرورت نہیں ہوتی، اُن کا جذبہ حریت و جہاد ان کی طاقت و کامیابی کی کلید ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جذبۂ حُریت اور قادر مطلق پر ایمان ابرہہ کے ہاتھیوں کو ابابیلوں کے بھوسہ بنا ڈالتا ہے۔
حقیقت تو یہ بھی ہے کہ 21 ویں صدی میں مسائل و معاملات کا حل خواہ بین الاقوامی سطح پر ہو یا ملکی حوالے سے ہو زور، زبردستی، بربریت یا جنگ کے کازار کو اپنا کر ہر گز نہیں ہو سکتا۔ فلسطین کا ایشو ہو یا کشمیر کا، واحد حل باہم مشاورت، عوام کی خواہشات کے مطابق اور عالمی فورمز پر منظور کردہ قراردادوں اور فیصلوں پر عمل کرنے میں ہی ہے۔ اسرائیل ہو یا بھارت، غیر انسانی مظالم اور قتل و غارت گری سے محکوموں کے جذبۂ حریت کو ختم نہیں کر سکتے، خواہ ان کے پاس کتنی ہی طاقت و اسلحہ اور عالمی طاقتوں کی سپورٹ اور مدد موجود ہو۔ جبر و استبداد اور قتال کا رد عمل ایک فطری عمل ہے اور اس کا نتیجہ امن ہر گز نہیں بلکہ جنگ و جدل، تباہی اور تنزلی ہے۔ مسلم اُمہ کے قائدین کو تو باالخصوص کتاب مبارکہ میں واضح ہدایت ”بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے منھے بچوں کیلئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ان ظالموں کی بستی سے نجات دے، اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا” پر عمل کرنا چاہیے۔ کم از کم اتحاد اُمت کا اظہار ہی کر دیا جائے۔ علامہ اقبال نے ایک صدی پہلے اُمت مسلم کو یہ پیغام دے دیا تھا،
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here