سید کاظم رضوی
قارئین کو سید کاظم رضا نقوی کا سلام پہنچے امید ہے تمام شائقین اور قارئین گزشتہ اقساط کو نظر میں اور ذہن میں رکھ کر ساتھ چل رہے ہونگے اور فلکیات کے عمیق علم کو جو کہ دنیا کے سامنے جتنا ظاہر ہوا اور کتب± میں بیان کیا گیا حقیقت میں اس سے کہیںزیادہ وسیع ہے۔ اس علم کی جتنی شاخیں دیکھیں ہیں شائد ہی دوسرے علوم میں کہیں مشاھدہ یا مطالعہ میں آئی ہوں۔ جو ہم بیانات پڑھ رہے ہیں وہ فلکی اجرام اور ہمارے نظام شمسی سے متعلق ہی ہیں جبکہ اس کی وہ شاخیں جو کہ قدیم مصر اور زرتشت سرزمین کے علاوہ ہند میں ہندومت کی رائج علم سیارگان پر مشتمل ہے وہ بالکل انوکھی اور مختلف تحریریں ہیں۔ ان سب میں ایک چیز مشترکہ ہے وہ بنیادی بڑے اجرام فلکی کا طلوع و غروب معنی کا وقت وہ نقطہءعروج پر ہونگے اور کب زوال کی طرف جاکر غروب ہوکرغائب ہوجائینگے۔ اب میں ایک سوال یہ کرتا ہوں کیونکہ جو سورج ایک دن طلوع ہوا پھر غروب ہوا جبکہ دوسرے دن وہی سورج پھر طلوع ہورہا ہے کون سی ایسی چیز ہے جو اس سورج کو گذشتہ روز سے منفرد کررہی ہے تو وہ ہے اس کا نیا دن اور تاریخ بس اسی بنیاد پر شمسی وقمری یا ہجری و عیسوی کیلنڈرز کی بنیاد پڑی۔ انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک اور تاقیامت یہ نظام ایسے ہی چلے گا۔ اس دن جب وہ پیدا ہوا اور اس دن جب وہ وفات پاگیا۔ اس دوران کا وقت زندگی ہے جو یہاں انسان بسر کرتا ہے اورا س کے بعدکے مراحل جو مختلف مذاہب نے مختلف بیان کئے ہیں۔ ہم الحمد للہ مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے اس زندگی پر جو اللہ کی طرف سے عطاءکی گئی اور اس کے بعد کی زندگی پر قیامت پر اور روز محشر اور آخرت پر مجھے یہ مثالیں اس وجہ سے بھی دینی پڑتی ہیں تاکہ تحریر و تحقیق کے ساتھ ہی میرا ایمان بھی واضح ہوتا رہے کیونکہ کچھ ناعاقبت اندیش لوگ اس دور میں بلاوجہ الزام لگانے یا بات کو کسی اور رخ سے پیش کرنے میں دیر نہیں لگاتے جس کا تجربہ مجھے کافی ہوچکا ہے۔ اسی وجہ سے گوشہ نشین ہوکر اپنی تحقیق کو عملی جامہ پہنا کر کچھ نئے طالبعلموں کیلئے راہ ہموار کرنے کی بنیاد رکھی ہے اور شوقین حضرات و خواتین کے شوق کا بھی مواد تیار کیا ہے۔ میری دعا ہے کہ کسی شرپسند اور منفی ذہنیت والے تک اس علم کا ادراک نہ پہنچ سکے اس کی وجہ آگے آنےوالے اسباق ہیں جن میں مثالوں سے وا ضح کیا جائے گا کہ نااہل کے ہاتھ علم کا آجانا کتنا ہلاکت خیز ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ اس گہرائی تک نہ جاسکتے ہیں اور یہ بھی قدرت کی طرف سے ایک انعام ہے وگرنہ دنیاوی نظام میں بگاڑ ہوجاتا اور عام لوگ اور خاندانی نظام کو انتہاءتباہی کا سامنا کرنا پڑتا۔ ہر چند کہ وہ تباہی آرہی ہے درجہ بدرجہ جیسا لوگ دنیا میں مشاہدہ بھی کررہے ہیں لیکن میں زیادہ اس طرح کی باتوں کو اس کالم میں جگہ نہیں دونگا۔
علم سیارگان میں گھروں کے نمبرز وہی ہوتے ہیں جوکہ بروج کے ہیں اب اس دائرے بروج کے باہر جو متعلقات ہوتے ہیں ان کی لسٹ موجود ہوتی ہے جیسا پہلے بیان کیا جاچکا ہے جس طرح بروج سے متعلقہ امور کا ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ بروج ان امور سے وابستہ ہیں اس لحاظ سے منجم ( ستارہ شناس یا ستاروں کا علم رکھنے والا ) متعلقہ تاریخوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جب زائچہ میں تبدیلی کرتے ہیں تو زائچہ کے گھروں کے ذریعے ہی بروج کو پڑھ لیتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص اس وقت پیداہوا جب برج حمل مشرقی افق کے درجہ اوّل پر طلوع تھا تو منجم کیلئے یہ بہت آسان ہے کہ وہ دائرة البروج ان کو پڑھ لے قدرتی تقسیم کے مطابق ان کو پڑھنا اور بھی آسان ہوجاتا ہے۔ بصورت دیگر ایسا نہیں ہوتا کہ زائچہ کے گھر طبعی بروج میں واقع ہوں اس حالت میں ان کا پڑھنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ان سے متعلقہ کواکب اپنے گھروں میں نہیں ہوتے اور ان کا مقام جاننا اور ان کی نظرات کا موازنہ کرنا صرف دماغ سوزی درست کوائف کا اندراج اور زاویہ نظر کو پڑھنے کی صلاحیت اور علم سے ہی ممکن ہوگا۔ بس یہی وجہ ہے کہ زائچہ کا پڑھنا اور تشکیل دینا آسان کام نہیں ہے اور یہ کہ اس اختلاف کے واقع ہوجانے میں ہی قدرت کا تخلیق ِعالم کا راز پوشیدہ ہے جس کو ایک حد تک تعلیم کردہ اصولوں پر ہی آگاہی ہوتی ہے اور انسان اسی مجبوری اور کم علمی کو سمجھتا ہے اور برسوں سے اس کائنات اور نظام کائنات کے رازوں کو پانے کی جستجو میں لگا ہے مشرق ہو یا مغرب قدیم زمانہ ہو یا جدید زمانہ علوم سیارگان ہمیشہ ہی لوگوں کی اور وقت کے عالموں کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور رہے گا کہ زندگی کے ماہ و سال کا اختتام اور ابتداءہی انسانی زندگی سے موت تک اس ہی گردش سیارگان سے جڑی ہوئی ہے۔
تو بس ثابت ہوا انسان کی گھٹی میں پڑا ہوا یہ گردش فلکیات اس کو اس کی جستجو سے قریب کرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کچھ تاریخوں اورسال کے حصوں میں اور دنوں میں مبارک ہوتے ہیں کچھ اچھے یا برے کہلاتے ہیں جن کی تقسیم وہاں کے رسم و رواج اور قدیم مشاہداتی اور ثقافت سے جڑی نظر آتی ہے جبکہ بسا اوقات اس میں مذہبی رسومات اور مذہبی اہمیت کا بھی عمل و دخل کثرت سے دکھتا ہے۔ مجھے اس وقت اور زیادہ احتیاط سے لکھنے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آتی ہے کہ ایک ذمہ دار قلم کار اورمحقق اپنی تحقیق کو محفوظ بھی بنا رہا ہو اور رموز کو تحریر میں مخفی کررہا ہو لیکن ساتھ ہی اس کو دیگر عوام الناس کا خیال بھی ہو جواس کے کسی بیان سے دل برداشتہ نہ ہوں اور اس تحقیق یا علم کو اپنے خلاف بیان نہ سمجھ بیٹھیں۔ اتنی خشک اور کہیں بے ربط تحریر کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان کالموں اور نقاط کو صرف وہی سمجھیں گی اور پڑھیں گے جو اس متعلقہ شعبہ میں بنیادی آگہی رکھتے ہونگے جبکہ بالکل بنیادی سطح پر سمجھنے والے طلباءبھی ان مقالوں کے سلسلے سے ضرور مستفید ہونگے بیک وقت اس میں جدید اوربنیادی باتوں کی آمیزش ہوگی۔
اب آخر میں آپ لوگوں سے اجازت چاہتا ہوں اور دعا گو ہوں اللہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور بحیثیت مسلمان ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو اور زندگی سیدھے راستے پر چلے۔ آمین
٭٭٭