اسلام آباد (پاکستا ن نیوز)عمران حکومت کا ہر گزرتے دن کے ساتھ گراف نیچے گرتا جا رہا ہے ، پہلے کرونا وائرس کی رو ک تھام کیلئے ناکافی اقدامات پر تنقید کی زد میں آئے تو اب پارٹی اختلافات نے ایک مرتبہ پھر حکومتی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے ، پی ٹی آئی کی اعلیٰ شخصیات کے درمیان تنازعات اور اختلافات کے پبلک میں آنے کے بعد عمران حکومت کا امیج مزید خراب ہوا ہے ، فواد چودھری کی جانب سے پارٹی معاملات پبلک میں لانے پر وزیراعظم عمران خان نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اکھاڑ بچھاڑ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ،وزیراعظم کی ناراضگی کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری سے ملاقات کی جس کے دوران تمام گلے شکوے دور کیے گئے ، اس کے بعد شاہ محمود اور اسد عمر نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور ان کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ،ایم این اے فیصل واوڈا کا غصہ کم نہ ہوا اسمبلی میں تنقید کا نشانہ بنائے جانے پر انھوں نے صدر مملکت عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کر کے ان کو اپنے خدشات سے آگا ہ کیا ، دوسری طرف پاک فوج نے حکومت کو معاملات درست کرنے کے لیے 9 ماہ کی ڈیڈلائن دے دی ہے اور اس کا اشارہ وزیراعظم نے بھی دیا ہے کہ اگر 9 ماہ میں معاملات درست نہ ہوئے تو بات ختم ہو جائے گی ،اسٹیبلشمنٹ کے مطابق اس مرتبہ ن لیگ ، پی پی کی بجائے کسی تیسرے فریق کے لیے سٹیج سجایاجائے گا ، اشارہ مارشلا کی طرف نہیں ہے بلکہ تیسری سیاسی قیادت متعارف کروائی جا سکتی ہے ، ہو سکتا ہے کہ ڈیموکریٹس کو سامنے لایا جائے یا اس طرح کی کوئی سیاسی پارٹی متعارف کروائی جا سکتی ہے ۔ دریں اثنا وزیراعظم عمران خان نے پارٹی معاملات پبلک میں آنے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا فیصلہ کیا گیا ، اس کے ساتھ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ، وزیراعظم کی ناراضگی کے اظہار کے بعد اسد عمر ، شاہ محمود قریشی نے فواد چودھری سے خصوصی ملاقات کر کے تمام گلے شکوے دور کیے ، اسد عمر اور شاہ محمود نے صدر اور وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ان کو بھرپور اعتماد اور سپورٹ کی یقین دہانی کرائی، دوسری طرف فیصل واوڈا نے وزیراعظم اور صدر سے الگ الگ ملاقاتوں کے دوران ان کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا ہے ۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ پارٹی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے ، فواد چودھری نے نجی ٹی وی پر انٹرویو کے دوران بتایا کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس 9 ماہ ہیں۔ عمران خان نے کابینہ سے کہا ہے کہ چھ ماہ میں کارکردگی نہ دکھائی تو معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔پارٹی کے اندرونی جھگڑوں سے حکومت کو نقصان پہنچا۔ وزیراعظم کے مشیر فیصلے کر رہے ہیں اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہیں۔ فوج کا کردار کمزور سیاسی قیادت کی وجہ سے بڑھا۔فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کی گئیں۔ یہ توقعات نٹ بولٹ ٹھیک کرنے کے لیے نہیں بلکہ پورے نظام کی اصلاح کے لیے رہیں اس لیے اس حکومت کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے پیمانہ دوسروں سے مختلف ہے۔ اس میں ہماری اپنی کوتاہیاں ہیں کہ ڈیلیور نہیں کر سکے۔انھوں نے کہا کہ حکومت میں آنے سے پہلے نظام میں تبدیلی کے بارے میں عمران خان کے خیالات بالکل واضح تھے لیکن جب حکومت بنی تو جہانگیر ترین، شاہ محمود اور اسد عمر میں اتنے جھگڑے ہوئے کہ سارا سیاسی طبقہ کھیل سے باہر ہو گیا۔ جہانگیر ترین نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے فارغ کروایا تھا۔ اسد عمر دوبارہ آئے تو انھوں نے جہانگیر ترین کو فارغ کروا دیا۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی ملاقاتیں ہوئیں لیکن بات نہیں بنی۔سیاسی خلا ان نئے لوگوں نے پ±ر کیا جن کا سیاست سے تعلق نہیں تھا۔ صرف آئیڈیاز کافی نہیں ہوتے۔ آپ کو ایک ٹیم بنانی ہوتی ہے جو اس پر عمل درآمد کرتی ہے۔ عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی جب کہ نئے لوگ پرانے آئیڈیاز کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھے۔ ان میں صلاحیت بھی نہیں ہے۔فواد چودھری نے کہا کہ ٹیم تو لیڈر ہی نے منتخب کرنی ہوتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ ایسا کیوں ہوا۔ کیونکہ مسلم دنیا میں کوئی عمران خان جیسا لیڈر نہیں ہے۔ ترکی کا لیڈر مغرب میں قابل قبول نہیں ہے۔ عرب سربراہان کے اپنے تنازعات ہیں۔ ایران کے اپنے مسائل ہیں۔ جس واحد لیڈر میں مسلم ممالک اور مغربی دنیا کو قریب لانے کی صلاحیت ہے، وہ عمران خان ہیں۔ اس جانب کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی کیونکہ جب آپ کی اندرونی قیادت کمزور ہوتی ہے تو بیرونی سیاست پر توجہ نہیں دے سکتے۔انھوں نے کہا کہ یہ بات تو کہی جاتی ہے کہ فوج کا بہت کردار بڑھ گیا ہے اور سویلینز کو زیادہ موقع دینا چاہئے لیکن آپ اپنی پارلیمانی قیادت کو دیکھیں پھر صوبائی قیادت کو دیکھیں۔ ایسی قیادت کے ساتھ کیسے سویلین بالادستی ہو سکتی ہے؟ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی سمجھ آتی تھی کہ انھوں نے کمزور لوگوں کو اہم عہدوں پر لگایا کیونکہ ان کا مقصد قیادت کو اپنے بچوں کو منتقل کرنا تھا۔ عمران خان کا تو یہ مسئلہ نہیں ہے۔ انھیں تو بہترین لوگوں کو عہدے دینے چاہیے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں کس نے مشورہ دیا کہ کمزور لوگوں کو لگائیں جو ہر بات کی ڈکٹیشن لیں۔ اس کا عمران خان کی ذات کو نقصان پہنچا ہے۔انھوں نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ دھرنے میں جن افراد کے خلاف مقدمات قائم ہوئے تھے، انھیں ختم کروائیں۔ دو سال ہو گئے ہیں، وہ مقدمات ختم نہیں ہو سکے۔ اصلاحات کے لیے جو بھی تجاویز تھیں، ان میں سے کسی پر عمل نہیں ہو سکا۔ ہم ایک روٹین کی حکومت چلارہے ہیں۔فواد چودھری کا کہنا تھا کہ حکومت دو چیزوں پر چلتی ہے۔ ایک سیاست پر اور دوسرے گورننس پر۔ ان دونوں میں توازن قائم نہ رہے تو معاملات کسی بھی وقت قابو سے باہر نکل جاتے ہیں۔ عمران خان کو اس بات کا پورا احساس ہے۔ انھوں نے کابینہ اجلاس میں بھی کہا کہ آپ کے پاس چھ ماہ ہیں کام کرنے کے لیے۔ اس کے بعد وقت آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور معاملات دوسری طرف چلے جائیں گے۔پارلیمانی طرز حکومت میں ماہرین سے رائے لی جاتی ہے لیکن فیصلہ سیاست دان کرتے ہیں۔ اگر وزیراعظم کے مشیر زیادہ ہوں گے، خصوصی معاون زیادہ ہوں گے اور سیاسی لوگ منہ دیکھ رہے ہوں گے ایک دوسرے کا اور فیصلہ سازی میں شامل نہیں ہوں گے تو پارلیمانی نظام پر تو سوالیہ نشان لگ جائے گا۔