بڑی تبدیلی آگئی ….!!!

0
137
شمیم سیّد
شمیم سیّد

ملک بھر میں کورونا کی وبا نے ہر خاندان پر پہلے ہی ٹیسٹوں‘ ادویات اور اضافی غذا کا بوجھ بڑھا رکھا ہے۔ کاروبار اور روزگار کی سہولیات کم ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے ادویات کی قیمتوں میں سات سے دس فیصد اضافہ سستے علاج کی امید لگائے افلاس زدہ طبقات کے لیے مایوسی کا موجب بنا ہے۔یہ فیصلہ کسی طور پر درست قرار دیا جا سکتانہ اسے عوام دوست کہا جا سکتا ہے۔ کسی ملک کی پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری کو بروقت اور اس کی آمدن کے حساب سے موزوں خرچ پر علاج معالجے کی سہولیات میسر ہوں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں جب کبھی علاج معالجے کی سہولیات کی بات کی گئی تو اس کا مطلب ہسپتالوں‘ ڈسپنسریوں اور شفاخانوں کی عمارات تعمیر کرنا رہا۔ ان عمارات میں کام کرنے والا عملہ‘ جدید آلات اور ادویات کی مناسب نرخوں پر فراہمی کے لیے سرکاری حکام کا انحصار ان شعبوں سے وابستہ نجی کمپنیوں پر رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ علاج معالجے کی سستی سہولیات اس وقت تک فراہم نہیں کی جا سکتیں جب تک حکومت ادویات کی قیمتیں کم کرنے پر توجہ نہ دے۔ گزشتہ برس مختلف ادویات کے نرخوں میں پندرہ فیصد اضافہ کیا گیا۔ اس سال پھر اضافہ کردیا گیا حالانکہ خام مال کی کمی‘ افرادی قوت کے معاوضے میں اضافہ یا حکومتی ٹیکسوں کی شرح میں کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔ پاکستان میں حکومتوں نے ادویات کے نرخ کم کرنے پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ ادویہ ساز اداروں کی من مانی کی صورت نکلا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتوں میں ادویات کی کمپنیوں نے حکومتی شخصیات سے گٹھ جوڑ کر کے عوام کو لوٹا۔ تحریک انصاف کی حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ اس حوالے سے اصلاحات متعارف کرائے گی۔ دو سال گزر چکے‘ عامر کیانی بدعنوانی کے الزامات پر وزارت سے الگ کئے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ادویہ ساز اور ادویات کی مارکیٹنگ کمپنیوں سے ساز باز کر کے دواﺅں کی قیمتیں بڑھائیں۔ ملک بھر میں ضروری اور زندگی بچانے والی ادویات کے نرخ جب چاہے بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کم آمدن والے طبقات کے لیے ہیلتھ کارڈ جاری کئے لیکن یہ کارڈ نہ تو تمام مستحق لوگوں کو تقسیم ہو سکے اور نہ ہی ان کو نجی ہسپتال قبول کر رہے ہیں۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ 2018ء میں حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے جن ادویات کی قیمتوں میں 15 سے 24 فیصد اضافے کی اجازت دی تھی ،بدانتظامی اور کمزور حکومتی گرفت کی وجہ سے فارما سیوٹیکل کمپنیوں نے ان کے نرخوں میں 24 سے 500 فیصد اضافہ کرلیا۔ اس غیرقانونی اضافے کو روکنے کے لیے حکومت کچھ نہ کرسکی۔ پاکستان میں 1976ء کے ڈرگ ایکٹ کے تحت ادویات رجسٹرڈ ہوتی ہیں جبکہ ان کو فروخت‘ ذخیرہ اور تقسیم کرنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان ایکٹ 2012ءکو بروئے کار لایا گیا۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی وفاقی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا معاملہ ڈریپ کی پرائسنگ کمیٹی کے پاس جاتا ہے جہاں سے منظوری کے بعد وفاقی کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے۔ کابینہ کے بعد یہ معاملہ وفاقی وزارت صحت کے اختیار میں آ جاتا ہے جو قیمتوں میں اضافے کا حتمی اعلان کرتی ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ ڈرگ پرائسنگ کمیٹی، ڈریپ اور حکومت میں ایسے افراد موجود ہیں جو فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں پھر یہ امر بھی بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے کہ اس سارے عمل میں 180 دن لگتے ہیں۔ نئی ادویات کی رجسٹریشن یا ادویات کی درآمد کے لیے بھی فیصلہ اتنے دن لے جاتا ہے۔ اس عمل کو مختصر کرنے کے لیے کمپنیاں رشوت استعمال کرتی ہیں۔ فیصلہ کے لیے یہ مدت زیادہ سے زیادہ 30 دن پر محیط ہونی چاہیے۔ رواں ماہ کے آغاز میں وفاقی حکومت نے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو ازخود ادویات کی قیمتیں بڑھانے کا اختیار ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2018ئ کی ڈرگ پرائسنگ پالیسی کو ڈرگ ایکٹ 1976ء سے متصادم بتایا گیا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے تجارت رزاق داﺅد اور معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ اب ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار ڈریپ اور وزارت صحت کو حاصل ہوگیا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا فیصلہ اسی نئے میکنزم کے توسط سے کیا گیا ہے۔ چونکہ وزیراعظم کے پاس وزارت صحت کا قملدان بھی ہے اس لیے عوام کے لیے تکلیف دہ فیصلے کی ذمہ داری ان پر بھی عائد کی جا رہی ہے۔ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت نے نچلی سطح پر ڈرگ انسپکٹر تعینات کر رکھے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹروں کے کام کرنے کا طریقہ کار کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہا بلکہ اس نظام نے بدعنوانی کو نئی نئی شکلوں میں ابھارا۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن‘ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور مختلف امراض میں مبتلا افراد بیک وقت ادویات کے نرخ مقرر کرنے کے نظام کو غیر شفاف قرار دے رہے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here