حیدر علی
کہا جاتا ہے چھوٹے تو چھوٹے بڑے بھی ماشا اﷲ۔ اِسی قول کا مصداق امریکا کے ایک ارب پتی ریئیل سٹیٹ کے نامور مغل ہیری میکلوپر بھی ہوتا ہے ۔ ہیری میکلو تا ہنوز ایک ارب پتی ہیں ، لیکن وہ رواں سال کے مارچ سے دو لاکھ ڈالر ماہانہ اپنے دفتر کا کرایہ دینا بند کر دیا ہے۔ اُنکا دفتر نیویارک کی مشہور جی ایم بلڈنگ جو ہوٹل پلازہ کے ٹھیک سامنے اکیسویں منزل پر واقع ہے ۔ شومئی قسمت کہ ہیری میکلو ماضی میں خود اُس بلڈنگ کے مالک ہوا کرتے تھے۔ لیکن سال 2008 ءکی معاشی بحران کے دوران وہ اپنے سر پہ کثیر قرض کی رقم کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اپنی شاہانہ شان و شوکت کو بحال رکھنے کیلئے اُس بلڈنگ کو زاکر مین بوسٹن پراپرٹیز کو فروخت کردیا تھا۔ دونوں ریئیل سٹیٹ مغل کے مابین یہ ایک سوئیٹ ہارٹ ڈیل تھا، کیونکہ جی ایم بلڈنگ کے اکیسویں فلور کے 28 ہزار فٹ کے احاطہ میں واقع اِس دفتر کا کرایہ میکلو کو ایک سو ڈالر فی اسکوائر فٹ دینا پڑتا ہے ، جو مارکیٹ ریٹ کے تناسب سے کم سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جی ایم بلڈنگ کے مالک زاکر مین سخت ناراض ہیں، اور کہتے ہیں کہ میکلو نے اُن کے منھ پر ایک طمانچہ مارا ہے۔ جی ایم بلڈنگ کے باقی تمام کرائے دار تا ہنوز وقت پر کرایہ ادا کر رہے ہیں۔
در حقیقت کورونا وائرس کوباعث بناکر کرایہ نہ ادا کرنا ایک مذاق بن گیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اُس کی کرائے دارن جو چار ماہ سے کرایہ نہ ادا کر رہی ہے، اپنے کتے کے ساتھ پیرس وکیشن کیلئے گئی ہوئی ہے، اور ہمارا دوست بیچارا دِن و رات مورٹ گیج کی ادائیگی کیلئے فکر مند ہے۔ ہمارے محلے کے ایک بنگالی شناسا کی کہانی بھی دلچسپ ہے ۔ اُن کی کرائے دارن نے نہ صرف کرایہ دینا بند کر دیا ہے، بلکہ ایک رات اُس نے یہ درخواست بھی کردی کہ اُس کے پاس کھانا کھانے کیلئے کوئی رقم نہیں ، لہذا وہ فی الفور ناشتہ اور کھانا اُن لوگوں کے ساتھ کھایا کرے گی۔ بنگالی دوست کی بنگالن بیگم نے آسمان سر پہ اٹھالیا ہے ، اور اِس بات پر اڑ گئیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر اُس خاتون کو اپنے گھر میں داخل نہ ہونے دینگی۔ اور اگر بنگالی بابو اُس کی بات پر رضامند نہ ہوے تو وہ بنگلہ دیش چلی جائینگی۔ اطلاع کیلئے کرائے دارن اور بنگالی بابو کے مابین کرائے کیلئے مقدمہ بازی ہاﺅسنگ کورٹ میں زیر التوا ہے۔
تاہم ہیری میکلو کی کہانی بھی کچھ عجب سی ہے۔ 2008 ءمیں اُن کی دولت جو 2 بلین ڈالر پر مشتمل تھی غبارا بن کر ہوا میں اُس وقت اُڑ گئی جب اُن کی 60 سالہ پرانی شادی طلاق پر ختم ہوگئی ، اور میاں بیوی کے درمیان جائداد کی تقسیم پر سخت تصادم شروع ہوگیا۔ میکلو کو اپنی بیوی کو ایک بلین ڈالر کی جائداد کو دینا پڑگیا۔ اِسی اثنا اُنہیں جی ایم بلڈنگ کو فروخت کرنا پڑ ی، جسے وہ اپنے تاج کا کوہ نور سمجھتے تھے۔ مورٹ زاکر مین کو جی ایم بلڈنگ کی قیمت 2.9 بلین ڈالر ادا کرنا پڑی تھی۔ کرایہ ادا نہ کرنے والے ہیری میکلو نے 2007 ءمیں مین ہٹن میں 7 فلک بوس بلڈنگیں 7 بلین ڈالر میں خریدیں تھیں۔ اُنہیں اپنے قیمتی سرمایہ اور 700 ملین ڈالر کے آرٹ ورک کو بھی فروخت کرنا پڑگیا تھا۔ ہیری میکلو ابھی بھی متعدد بلڈنگیں جن کی قیمتیں بلین آف ڈالرز ہیں کے مالک ہیں۔
ہیری میکلو کا اقدام اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بے شمار افراد کورونا وائرس کو بلا امتیاز وجہ بنا کر اپنی ذاتی فوائد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی نے ہیری میکلو کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ حکومت اُن کے آفس کا کرایہ معاف کردے گی ، اور وہ ایک ملین ڈالر مزید اپنے بینک اکاﺅنٹ میں اضافہ کرنے کے اہل ہو جائینگے۔ ساری دنیا کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کے فکر میں مبتلا ہے، اور وہ اِس خیال میں گُم ہیں بلکہ خواب میں بھی یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ڈالر اُن کے گھر کی چھت سے بارش بن کر برس رہی ہے۔ لیکن شاید اُنہیں مقدر کے فرمان کا کوئی علم نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اُنہیں انٹرنل ریونیو سروس کی جانب سے کوئی دس لاکھ ڈالر کے ٹیکس کی بِل جس میں انٹرسٹ اور لیٹ پیمنٹ بھی شامل ہو ں موصول ہوجائے۔
مالک مکانوں کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ اگر اُنہوں نے اپنا مکان ، اپارٹمنٹ یا مکان کا کچھ حصہ کرائے پر دیا ہوا ہے ، اور اُن کے کرائے دار نے سرخ جھنڈی لہرا دی ہے تو نیویارک سٹی کی حکومت اُنہیں چار ماہ کا کرایہ جو اپریل سے جولائی کے ماہ تک پر مشتمل ہوگا دینے کی کاروائی پر عمل پیرا ہوگئی ہے۔
تاہم یہ پیشکش اتنی پیچیدہ ہے کہ رقم حاصل کرنے کیلئے مالک مکان کو پہاڑ کھودنے کی ضرورت پڑے گی۔ سب سے اوّل تو رقم حاصل کرنے کیلئے کرائے دار کو درخواست دینی پڑے گی لیکن چیک مالک مکان کے نام آئیگا۔ لہذا کرائے داروں کی اکثریت کو حکومت کی اِس پیشکش میں دلچسپی لینے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ کرائے دار جو کرائے ادا کئے بغیر مفت کے مکان میں رہ رہے ہیں، اُنہیں نکال باہر کرنے کی بھی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آتی ، تو پھر اُنہیں کیا ضرورت ہے کہ وہ لوگ اِس جھمیلے میں سر گرداں ہوں۔ حالانکہ پیشکش میں یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ اگر کرائے دار نے اپریل سے جولائی تک کا کرایہ ادا بھی کردیا ہے تو بھی وہ رینٹ ریلیف سے حاصل کی ہوئی رقم کو مستقبل کے کرائے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ رقم حاصل کرنے کی شرط صرف یہ ہے کہ متذکرہ مدت میں اُن کے ہا¶س ہولڈ کی آمدنی کورونا وائرس کی وجہ کر معمول سے کم ہو۔ مثلا” اُن کا کاروبار ٹھپ ہوگیا ہو یاملازمت چھوٹ گئی ہو۔ درخواست دینے کی مدت اِس ماہ کے آخر تک ہے، اور یہ پیشکش صرف ایک مرتبہ کیلئے ہے۔