آپریشن لیجینڈ!!!

0
565

قارئین آج سے کوئی دو ماہ قبل منی آپلس میں20ڈالر کے ایک جعلی نوٹ رکھنے کے جرم میں جان فلائیڈ کو پولیس نے بے رحمی کے ساتھ گردن پر گھٹنا رکھ کر قتل کردیا تھا۔ اس پر ہنگامے پھوٹ پڑے اور پھیلتے پھیلتے پورے ملک میں اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی۔ اکثر شہروں میں نسلی فسادات بھی ہوئے، لوٹ مار میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا، بڑے بڑے سٹوروں اور بینکوں کی کھڑکیوں پرمضبوط تختے اور لوہے کے جنگلے لگا دئے گئے ہیں۔ اس تحریک کو بلیک لائیوزمیٹر کا نام دیا گیا۔خانہ جنگی اور تحریک آزادی کے کئی نامور جرنیلوں اور رہنماﺅں کے نصب مجسمے اکھاڑ دیئے گئے۔ بعدازاں ریاستی اور شہری حکومتوں نے خود ہی جن میں کرسٹو کولمبس کے مجسمے بھی شامل ہے ہٹا دیئے گئے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص مزاج کے مطابق تحریک کی مخالفت میں بیانات دیئے جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
واشنگٹن سٹیٹ کے شہر سیاٹل پورٹ لینڈ جو اوریگن سٹیٹ کا دوسرا بڑا شہر ہے دونوں ویسٹ کوسٹ پر واقع ہیں جن میں وفاقی بلڈنگوں کا محاصرہ کر لیا گیا جواب بھی جاری ہے۔ پولیس نے لوئی ویل پورٹ لینڈ سیاٹل اور دیگر کئی شہروں میں مظاہرین سے قبضے چھڑانے کی کوشش کی مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود کامیابی نہ ہوسکی۔گزشتہ دنوں دبی دبی خبریں آنا شروع ہوئیں کہ42لاکھ آبادی والی ریاست اوریگن کے بڑے شہر پورٹ لینڈ جسکی مجموعی آبادی سات لاکھ کے قریب ہے امریکن انڈین کبھی اس سٹیٹ سے آبائی باشندے تھے مگر اب وہ نسل ناپید ہے البتہ سفید فام اکثریت میں ہیں جنہوں نے وفاقی جوڈیشل بلڈنگز پر قبضہ کر رکھا ہے صدر ٹرمپ کے حکم پر ہوم لینڈ سکیورٹی جسے سابق صدر بش نے نائن الیون کے بعد مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے تشکیل دیا تھا پہلی بار احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے استعمال کیا اور بغیر لائسنس پلیٹ کی گاڑیوں میں نیم فوجی دستوں نے پرامن اور یونین جگہ مشتعل مظاہرین کو اٹھا کر گاڑیوں میں نامعلوم مقام پر منتقل کرنا شروع کردیا۔ بارڈر پٹرول سکیورٹی، ایف بی آئی اور کسٹم امیگریشن کے حکام بھی بھاری اسلحے کے ساتھ بغیر نام کی وردیوں میں مظاہرین اٹھانے لگے۔ مین سٹریم میڈیا نے ان خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی البتہ سی این این نے خبروں میں بتانا شروع کیا۔ اس ہفتے جب فیڈرل فورسز نے طاقت کا استعمال شروع کیا تو اسکی زد میں پورٹ لینڈ کے ڈیموکریٹ میئر ٹیڈوہیلر اور پولیس کمشنر بھی آئے اور آنسو گیس انکو لگے جب وہ مظاہرین سے گفتگو کر رہے تھے۔صدر ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ جن ڈیموکریٹ یعنی انکی مخالف سیاسی جماعت کے شہر میں مظاہرہ ہونگے وہاں وہ وفاقی نیم فوجی دستے جنکی تعداد75000تک ہوگی استعمال کئے جائینگے۔ انہوں نے اس پر عمل درآمد شروع کردیا ہے بعض اراکین کانگریس اور میئرز نے عدالتوں سے رجوع کیا لیکن عدالتوں نے صدر ٹرمپ کے اقدامات کو درست قرار دیا تاہم میڈیا کو رپورٹنگ کی مشروط اجازت دے دی۔سول لبرٹیز اور دیگر تنظیموں نے کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کےخلاف ایکٹ اور کسٹم بارڈر پیٹرول سرحدوں کی حفاظت کےلئے بنائی گئی تھی جسے امریکی عوام پر طاقت کے استعمال کےلئے لایا گیا ہے کئی اسلامی رہنماﺅں نے خبردار کیا ہے کہ نائن الیون کے بعد ان ایجنسیوں کے ہاتھوں جن نام نہاد مسلمانوں نے اپنے لوگوں پر مظالم ڈھائے انہیں بے نقاب کیا جائے گا۔تاریخ کے ایک پروفیسر شرلی جیکسن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ افریقن امریکنز کی سماجی انصاف کےلئے شروع کی گئی تحریک کونسل پرستوں نے ہائی جیک کرلیا ہے اور تمام تر توجہ ان قابض مظاہرین کی طرف ہوگئی ہے بلیک لائیوزمیٹر کو بری طرح سبوتاژ کر دیا گیا ہے۔
کئی حلقے یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ مصر، ہانگ کانگ، فلپائن، ترکی اور بعض دیگر عرب ممالک کی طرح اب امریکہ میں بھی لوگوں کو اپنا حق مانگنے پر غائب کیاجانے لگا ہے ۔ان پر دہشت گردی کے قوانین کا نفاذ کیا جارہا ہے۔خاص طور پر مسلمانوں کو پروفائل کرکے انہیں نشانہ بنایا گیا ۔ لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک پر احتجاج کو کسی طور پر دہشت گردی قرار نہیں دیا جاسکتا۔پیر کے روز ہوم لینڈ سکیورٹی کے ڈپٹی قائم مقام سیکرٹری گوچی نیلی کین نے ایک ٹویٹ کے ذریعے پورٹ لینڈ کی تحریک دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے سی این این نے ایک نہتی لڑکی پر تین فوجیوں کو تشدد سے زیر کرکے اس لڑکی پر سوار دکھایا گیا ہے۔
نومبر کے الیکشن قریب آتے ہی صدر ٹرمپ نے75ہزار فوجی دستے ان مظاہرین کو منتشر کرنے کےلئے جو دھمکی دی تھی اس پر عملدرآمد شروع کر دیاگیا ہے۔ سابق صدر بش نے اپنے ری الیکشن کےلئے اسامہ اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر امریکی عوام کے جذبات مشتعل کرکے ووٹ حاصل کئے اب ٹرمپ پرامن حق مانگنے والوں کو کچل کر انتہا پسندی کے حامیوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دونوں پالیسیاں غلط تھیں اور امریکی باشعور ووٹرز ہمیشہ سے اپنی ویلیوز کا تحفظ کرتے آئے ہیں البتہ یہ کڑا امتحان انکے سروں پر آن پہنچا ہے۔
دعا ہے کہ وہ اس امتحان سے کامیاب وکامران ہوکیونکہ کورونا اور پھر نسلی فسادات نے معیشت، قومی یکجہتی نے بہت ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہے۔ تاہم اس نیشن آف امیگرنٹس نے امریکہ کو ایک عظیم اور ناقابل تسخیر ملک بنانے میں جو جدوجہد کی ہے وہ رائیگاں نہیں جائیگی۔اسٹیبلشمنٹ نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرکے دنیا پر اپنا تسلط بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسکے برعکس امریکی قوم نے ہمیشہ دنیا بھر کے مظلوم عوام کا ساتھ دیا ہے۔ موجودہ نسلی برتری اور احساس محرومی کےخلاف تحریک میں بھی اس قوم نے سڑکوں پر نکل کر پرامن تحریک چلائیں۔ بعض مقامات پر تخریب کاروں نے اس تحریک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تاہم مجموعی طور پر کسی بھی نسلی تفریق سے بالاتر ہوکر جدوجہد کی۔ سیاسی لیڈر شپ بھی اس کوشش میں ہے کہ ری اوپن ری سٹارٹ اور ری بلڈ کا نعرہ دیکر یہ عزم کیا ہے کہ کرونا سے پہنچنے والے نقصان کو اسی نعرے کو بنیاد بنا کر پھر سے معیشت کو پھر سے عروج پر پہنچا کر دم لے گی۔دنیا بھر کی قوموں کےلئے اس میں پیغام ہے کہ قوم اور لیڈر شپ قومی تعمیر وترقی میں ذاتی دشمنیوں اور اختلافات سے ہٹ کر فیصلے کریں اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here