پچھلے ہفتے کال پہ کال مفتی صاحب بتائیں، قربانی کریں، یا پیسے غریبوں میں بانٹ دیں، کوشش کی جس کسی کی بھی کال آئی جواب بھی دوں اور حتی المقدور مسئلہ کی نوعیت بھی عرض کروں۔ ظاہر ہے ہر عالم جو کتابیں پڑھتا ہے اس میں سے مسائل بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید سے لے کر آئمہ کرام کی فقہانہ جدوجہد تک جس عالم کی سمجھ میں جو آتا ہے وہ بیان کر دیتا ہے یا لکھ دیتا ہے۔ مثلاً قربانی کرنے والے یا مسلمان یکم ذوالحج سے قربانی تک نہ بال کٹاتے ہیں اور نہ ہی ناخن وغیرہ اور نہ ہی داڑھی وغیرہ اور جب عید کا دن ہوتا ہے۔ جو انعام ملنے کا دن ہے۔ اس دن داڑھی شریف شیو کرتے ہیں میرا نقطہ نظر یہ ہے یہ عمل مستحب عمل ہے، کرنے پر ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے پر مواخذہ کوئی نہیں مگر ایک مستحب عمل کیلئے عین عید کے دن جب سنت رسولﷺ پر استرا چلا کر داڑھی شیو کرتے ہیں جوکسی طرح بھی میرے نزدیک مستحسن نہیں ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ایک مستحب عمل کیلئے سنت کےساتھ ظلم کرنا جائز ہے۔ ظلم اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ظلم کی تعریف ہی یہی ہے جو چیز جہاں کیلئے بنائی گئی ہے وہاں سے ہٹا کر کہیں اور رکھنا یہی ظلم کی تعریف ہے۔ داڑھی شریف کو اپنے مقام پر پیدا کرنا خالق کی عطاءہے کیونکہ خواتین اس نعمت سے محروم ہیں۔ ہاں اگر داڑھی شریف رکھنے کی نیت سے چھوڑ دیں اور عید کے دن صرف خط کروائیں تو یہ عمل سونے پر سہاگہ ہے اجر اڑھائی گنا ہو جائےگا۔ یونہی قربانی کامسئلہ ہے ہوشیار لوگ غریبوں کی مجبوریاں اس طرح بیان کرینگے جیسے ان سے بڑا ہمدرد ہی کوئی نہیں ہے لیکن میں پوچھتا ہوں سارا سال ہم نے مرغیوں کی دکانیں خالی کر دیں ہر ہفتے تقریباً بکرا بن کر فریج کی زینت بن جاتا ہے کورونا کے دنوں میں تو ہم نے گوشت کےساتھ سارے شوق پورے کئے ہیں۔ ہمارے بیٹھے بیٹھے وزن بڑھ گئے ہیں کیا ہمیں ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال آیا کہ اس ماہ ہم بچت کرینگے آدھا بکرا لینگے اور آدھے کے پیسے بچائیں گے کم از کم ہم اپنے گوشت کے خرچے سے دو تین بکروں کے پیسے بچا سکتے ہیں۔ دس مرغیاں لے کر آتے ہیں ،آٹھ مرغیاں لائیں گے ،دو بچائیں گے کم از کم ایک بکرے کے پیسے ادھر سے نکل آئینگے، نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم اپنی قربانی اللہ کے حکم کے مطابق کریں تو ثواب کے مستحق ہوں حکم ربی اور فرمان نبوی بھی پورا ہو جائے اور سنت ابراہیمی کی عملی شکل بھی ادا ہو جائے اور وہ جو تین چار بکروں کے پیسے بچائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں غریب رشتہ داروں میں تقسیم کر دیں لیکن انہیں پھر ہوشیار کون کہے گا وہ جو پیسے اللہ کی راہ میں قربانی کی شکل میں خرچ ہونگے وہ غریبوں کو دے دو، یعنی اللہ کے حق میں ڈاکہ ڈالو اور جو بکرے تم بچا سکتے تھے وہ نہ بچاﺅ اور غریبوں کو نہ دو کیونکہ اللہ کے پیسوں سے دو گنا ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ ہمارے پیسے تو ہمارے ہیں ان سے تو صرف ہمارا ہی پیٹ بھرنا چاہیے اللہ کے پیسوں سے دو۔
٭٭٭