کوئی بھی ادارہ تنقید سے بالاتر نہیں ہوسکتا!!!

0
166
پیر مکرم الحق

جس طرح ہر انسان سے غلطی ہوسکتی ہے اس طرح ادارہ بھی انسانوں سے ہی چلتا ہے، اس میںخامیاں، خرابیاں ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔درس ومقدر میں ایک نہایت قابل عزت پیشہ ہے لیکن اس پیشہ میں غلط قسم کے عناصر کی موجودگی سے کوئی ذی ہوش انسان انکار نہیں کرسکتا اور غلط عناصر ایک اسکول، مدرسے اور مسجد اسکول جیسی پاکیزہ اداروں کی حرمت پامال کرسکتے ہیں۔اسی لئے احتساب کا تصور ازل سے موجود ہے۔کوئی بھی انسان سہواً یا غیر ارادی طور پر غلطی کااحتمال کرسکتا ہے۔عالمی طور پر ہے ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ کوئی بھی مروجہ قوانین سے بالاتر نہیں ہے۔چاہے وہ کرہ ارض پر دنیا کا طاقتور ترین صدر ہو یا کسی چھوٹے سے ملک کا صدر یا وزیراعظم ہو اسی طرح طاقتور ترین ادارے بھی جوابدہ ہوتے ہیں۔بڑی سے بڑی عدالتوں کے فیصلے بھی عوامی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں لیکن کوئی بھی ادارہ ہے سمجھنے یا کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ ان پر کوئی تنقید نہیں کی جاسکتی ہے۔کیونکہ احتساب کی پہلی سیڑھی تنقید ہے اگر کوئی ادارہ غلط کر رہا ہے تو پہلے مرحلے میں تنقید ہوتی ہے، دوسرے مرحلے میں تحقیق ہوتی اور تیسرے مرحلے میں قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے وہ منطقی طور پر کسی عدالت یا احتسابی فورم پر ہی ہوتی ہے۔سب سے پہلے تو عرض کر دوں کہ تمام قومی ادارے قوم کی اجتماعی ملکیت ہیں پہلے ادارے قوم کے خرچے پر ہی چلتے ہیں کبھی لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے براہ راست ٹیکس ادا کرنے والے تو قوم کے دو سے ڈھائی فیصد افراد ہیں۔لیکن حقیقت ٹیکس کے دوسرے روپ یعنی بلا واسطہ ٹیکس میں تمام لوگ بلکہ پوری عوام ٹیکس ادا کرنے والی ہے۔آپ ٹی وی، بجلی، گیس، پٹرول، مٹی کے تیل خورد ونوش کی اشیاءیعنی آٹا چینی اور گھی پر ہر خاص وعامہ ٹیکس ادا کرتا ہے نوے فیصد ٹیکس تو غریب آدمی سے وصول کیا جاتا ہے پچھلے دنوں موبائل فون کے کارڈ یا بل پر جب ٹیکس بڑھا دیا گیا تھا تو سب کی چیخیں نکل گئی تھیں اور عوام کو اختیار حاصل ہے کہ انکے فون پسینے سے کمایا ہوا پیسہ جب اداروں کو دیا جاتا ہے تو وہ کیسے خرچ ہوتا ہے خرچے میں اعتراف تو نہیں کیا جاتا بے ایمانی تو نہیں ہوئی، کیا جس کام کیلئے انہیں وہ بھاری رقوم دی گئی ہیں کیا وہ کام پوری دیانتداری سے انجام دیئے جاتے ہیں یا ان رقوم کا ایک بھاری حصہ اپنے ذاتی اعتراض ومقاصد یا اپنے اصل فرائض سے مسئلہ دوسرے بلواسطہ کاموں پر خرچ ہوئے ہیں۔اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر بھی اگر کوئی ادارہ کام کر رہا ہوتا ہے تو عوام کو تنقید کا پورا پورا حق ہے کہ وہ اس ادارہ کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنائے ۔چاہے وہ ادارہ کتنا بھی طاقتور ہو کیونکہ اسکی طاقت مرہون منت ہے عوامی مالی قربانی کی ،کس طرح ایک غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر حکومتی ٹیکس ادا کرتا ہے، کیا اس لیے بھی حق نہیں ہوتا کہ وہ جو اپنے بچوں کے منہ کا نوالہ چھین کر جو پیسہ ان متعدد اداروں کو چلانے کیلئے ادا کر رہاہے۔ان سے پوچھ بھی نہیں سکتا، اس پر بات بھی نہیں کرسکتا کہ بھائی آپ کیا کر رہے ہو”تمہیں جو رقم دی گئی ہے اس کا مقصد استعمال تو کرو کبھی آپ پاکستان کے شہروں کی کچی آبادیوں جا کر دیکھیں اب تو کچی آبادیوں کو چھوڑ آپ متوسط طبقہ کے محلے بھی دیکھیں تو براحال نظر آئیگا۔لیکن جب اسی محلہ کے قریب ایک کنٹونمنٹ یا عسکری آبادی جاکر دیکھیں تو آنکھیں دنگ رہ جاتی ہیں۔اسے لگتا ہے کسی دوسرے ملک میں آگئے ہیں اگر سوال کرو کہ بھائی ہے کیا حال بنا رکھا ہے؟تو جواب آتا ہے آپ لوگ خود ہی غلط لوگ چنتے ہو اور چوپو جمہوریت کا گنا!!!ارے بھئی ہم کہاں چنتے ہیں چناﺅ تو آپ کرتے ہیں ،کب اس ملک میں آزادانہ انتخابات ہوئے ہیں۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کبھی اس ملک میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے؟آپ ہی سیاستدان بناتے ہیں،دھرنے کراتے ہیں ا ور پھر آپ ہی انہیں بدعنوان قرار دیکر جیل بھیج دیتے ہیںاور آخر میں آپ ہی سارا ملبہ ہم عوام پر ڈال کر ہمیں کسی قصور وار قرار دے دیتے ہیں۔
اس پر ظلم کی انتہا ہے کہ ہمیں چیخ وپکار کی بھی اجازت نہیں کہ آپ ہم پر تنقید بھی نہیں کرسکتے۔صاحب!آپ کب تک ہمارے صبر کا امتحان لیں گے؟؟؟
امریکہ میں کچھ ہفتہ پہلے جب سیاہ فام تحریک جو اب صرف سیاہ فام تحریک نہیں رہی اس میں سفید فاموں کی اکثریت داخل ہوچکی ہے اور پہلی نسل بھی شامل ہوچکی ہیں۔جب Black Liveکا ایک احتجاجی ریلا صدر ٹرمپ کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاﺅس کے سامنے فلائٹ اسکوائر میں اپنا احتجاج کر رہا تھا تو صدر صاحب نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے محکمہ دفاع کے تمام افسران کے ساتھ ایک گروپ فوٹو نکلوانے کیلئے وائٹ ہاﺅس سے باہر آنا تھا تو انہیں خیال آیا کہ باہر احتجاجی جلسہ کی آوازوں کو بھی دبانا ضروری ہے گھوڑے سوار بارڈر پولیس اور نیشنل گارڈز کے پیاروں نے ملکر سراپا احتجاج لوگوں کی خوب درگت بنائی آنسو گیس سمیت مہلک گیس کی شیلنگ کی اور اس کے بعد اپنے گروپ فوٹو کے خواب کی تکمیل کی اس گروپ میں اتفاق سے امریکی افواج کا اعلیٰ ترین دعویدار چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ملی بھی ایک اجلاس کے سلسلے میں فوج میں موجود تھے انہیں بھی اس تصویر کیلئے بلا لیا گیا جب اپنے تصویر چھپی تو بہت تنقید ہوئی سابق فوجی افسران سیاستدانوں اور صحافیوں نے بھی کھل کر تنقید کے تیر چلائے بلاآخر جنرل میلی نے ٹی وی پر آکر عوام سے معافی مانگی کہ فوج کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ہمارا حلف ہمیں آئین کی پاسداری کا سبق دیتا ہے اور ہمیں سیاست سے دور رہنے کی تلقین بھی کرتا ہے، اسی لئے میں قوم سے معافی کا طلبگار ہوں ،کاش ہمارے ملک میں بھی فوج کے ادارے کو حلف کی پاسداری کا احساس پیدا ہوا ، ملک و قوم کی حفاظت جو ان کا اصل کام ہے اس پر متوجہ ہوں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here