” کراچی کا نوحہ“

0
193
مجیب ایس لودھی

کراچی کے مختلف علاقوں میں 26 جولائی کو ہونے والی موسلادھار بارش تو اسی روز تھم گئی تھی مگر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اربن فلڈنگ کی صورتحال ، عوامی جانوں اور املاک کو پہنچنے والے نقصانات کی ویڈیوز اب بھی مقامی میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر شیئر کی جا رہی ہیں۔آپ میں سے بیشتر افراد نے اورنگی ٹاو¿ن کی اس گلی کا منظر ضرور دیکھا ہو گا جس نے اس بارش کے بعد گندے نالے کا روپ دھار لیا اور برساتی پانی کی روانی سے کچھ ایسا محسوس ہوا کہ درحقیقت یہ جگہ نالے کے بہنے کی ہی ہے جس کے اطراف شہریوں نے اپنے گھر تعمیر کر لیے ہیں یا پھر وہ ویڈیو جس میں فلاحی تنظیم الخدمت فاو¿نڈیشن کے رضاکار سکول کی بچیوں کو سیلابی صورتحال کے علاقے سے نکال کر محفوظ مقام تک ریسکیو کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔برساتی پانی میں تیرتی بیش قیمت گاڑیوں اور گھروں کے اندر موجود قیمتی سازوسامان کی تباہی کی ویڈیوز تو اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ گننے میں نہیں آتیں،پورے ملک سے سوشل میڈیا پر کراچی ڈوبنے ، جگہ جگہ پانی کھڑے ہونے پر کئی نے مذاق اڑایا کئی نے دکھ کا اظہار کیا۔ہمارے ایک دوست جو ایبٹ آباد میں رہتے ہیں ایک پکچر لگائی جس میں ڈوبتے کراچی پر مذاق تھا ، ان کو انباکس میں لکھا “بھیا جس دن آپ کے علاقوں میں شدید زلزلہ آیا تھا ہم کراچی والے ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے تھے اپنے دل اور جیبیں کھول دی تھیں ، آپ ہماری مصیبت پر مذاق اڑا رہے ہو”یہ ہمارے ملک میں عمومی مزاج ہے ، کراچی کا کچرا ہو ، کراچی میں بہتے گٹر ہوں یا کراچی میں بارش سے ڈوبے علاقے ہوں ، ہم سے ہمدردی نہیں ہم سے مذاق کیا جاتا ہے اگر اتنی بارش اسلام آباد میں ہوتی تو شاید بارش ختم ہونے کے آدھ گھنٹے کے اندر اندر کسی علاقے میں پانی کھڑا نظر نہ آتا۔ ’اگر بات گنجان آباد راولپنڈی کی جائے تو بہت سے عوامل کی وجہ سے وہاں اتنی مقدار میں بارش چند مقامات پر اربن فلڈنگ کی صورتحال ضرور پیدا کرتی مگر شاید صرف ایک یا دو گھنٹے کے لیے۔ اور ایسا ان شہروں میں نکاسی آب کا کچھ بہتر نظام ہونے کے باعث ہے۔ کراچی کی صورتحال وہاں کے ڈرینج سسٹم کی وجہ سے ہے جہاں تھوڑی بارش بھی مسائل کو جنم دے دیتی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں سال کراچی میں مون سون بارشیں معمول سے 20 فیصد زیادہ ہوں گی جس کے نتیجے میں شہرکے متعدد علاقوں میں سیلاب کاخدشہ ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پیشگی تیاریوں کی ضرورت ہے۔اربن فلڈنگ گذشتہ کئی برسوں سے کراچی کا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور ذرا سی بارش شہر کی سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں سیلاب لے آتی ہے۔ 2007 میں ا±س وقت کی کراچی کی شہری حکومت نے شہر کی بہتری اور ترقی کے لیے ایک سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 مرتب کیا تھا جس میں کچرا ٹھکانے لگانے، برساتی پانی کی گزرگاہیں بنانے اور غیر قانونی تعمیرات روکنے کے حوالے سے سفارشات پیش کی گئی تھیں لیکن اس پلان کی مدت پوری ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوسکا۔اس وقت شہر کے تمام ندی نالے تقریباً بند ہیں اور ماہرین کے مطابق بارش ہونے کی صورت میں شہر میں برساتی پانی جمع ہو سکتا ہے۔کراچی سٹریٹجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی تھی کہ شہر کا کوئی جامع نقشہ موجود نہیں اور کہا گیا کہ حکومتی اداروں کی مدد سے معلومات اکٹھی کر کے ایسا نقشہ تیار کیا جائے جو شہر کے نشیبی علاقوں سے نکاسی آب کی نشاندہی کرے اور ٹوپوگرافک سروے کر کے درجہ بندی سے واضح کرے کہ کس جگہ اربن فلڈنگ کا خطرہ زیادہ ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ نہیں کیا جا سکا۔
کراچی نے آج تک کبھی کسی سے کوئی امداد نہیں لی ، کبھی کسی سے کوئی مدد نہیں لی ، ہماری مساجد میں ملک کے گمنام کسی گاو¿ں میں گمنام کسی مدرسہ کا نمائندہ کھڑا ہوتا ہے اور اعانت کی درخواست کرتا ہے ، نماز ختم ہونے کے بعد اس کی جھولی میں ڈھائی تین ہزار ہوتے ہیں۔کینسر ہسپتال ، گردے کا ہسپتال یا کوئی بھی فلاحی ادارہ بنتا کسی اور صوبے میں ہے مگر فنڈنگ کراچی میں بھی ہوتی ہے اور کراچی والے دیتے بھی ہیں۔اس شہر کی مثال اس بڑے بھائی کی سی ہے جو پوری زندگی قربان کرکے اپنے بھائیوں بہنوں کو پڑھا لکھا کر کسی مقام پر پہنچاتا ہے اور خود کسی تنہائی کا شکار ہوتا ہے یا اس بڑی بہن کی سی ہوتی ہے جو اپنی زندگی اپنے چھوٹے بھائی بہنوں پر لگا کر سفید بالوں کے ساتھ کنواری رہ کر محلے بھر کی آپا ہی رہتی ہے۔
ہمارے شہر کو اپنوں نے بھی زخم دیئے ہیں ، مڈل کلاس سے اپر کلاس بن گئے ، نیوکراچی ، لانڈھی سے سفر کرکے ڈیفنس ، لندن ، امریکہ ، کینیڈا اور ساو¿تھ افریقہ پہنچ گئے ، کسی نے اپنی شناخت کے لیے اپنی پارٹی کے آگے لفظ پاکستان لگا لیا تو کسی نے لندن تو کسی نے پاک سر زمین تو کوئی حقیقی بن گیایہاں کے حکمران کلفٹن کے بڑے بنگلے کی مضبوط اونچی دیواروں کے پیچھے سالگرہ مناتے ہیں ، یہاں کے عوامی نمائندے ہماری نمائندگی کے بجائے اپنے لیڈر کی تعریفوں اس کے ہینڈسم ہونے کے گ±ن گاتے رہتے ہیں ، کچھ اس میں سے کبھی استعفیٰ کا ڈرامہ کرتے ہیں کبھی اپنے وزیر کے تحت آئے ادارے کے خلاف ڈرامہ پریس کانفرنس کرتے ہیں تاکہ سوشل میڈیا پیجز کا پیٹ بھرا جاسکے۔یہ بڑا بدقسمت شہر ہے ، اس کے باسی دنیا کے بیوقوف ترین لوگ ہیں ، انہوں نے خود اپنے لیے مصیبتیں منتخب کی ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here