پاکستان وہ ملک ہے جوکہ چین سمیت ایشیائی ممالک کو قرض دیتا تھا لیکن پھر حکمرانوں نے ایسی لوٹ مار مچائی ک دبئی ، لندن، اٹلی ، سوئٹزرلینڈ میں بے شمار دولت منتقل کی، سوئس اکائونٹس میں اربوں ڈالر منتقل کیے گئے ،بات صرف سیاستدانوں پر ختم نہیں ہوتی، اس کے بعد فوجی جرنیلوں نے بھی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے، اربوں ڈالر سے بیرون ممالک میں پراپرٹیز بنائی، کمپنیاں خریدیں یہاں تک کہ ایک یورپی ملک میں جزیرہ خریدنے کا سہرا بھی فوجی حکمران کے سر ہے ۔طاقتور طبقے کی جانب سے خوب لوٹ مار کے بعد اشرافیہ نے بھی پوری کسر نکالی اور پیسہ عوام تک پہنچنے کی بجائے مخصوص طبقے تک محدود ہو گیا، آج ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اگر اوورسیز پاکستانی پیسہ نہ بھیجیں تو ملک دیوالیہ ہو جائے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے سالانہ ایشین ڈیولپمنٹ آوٹ لک رپورٹ 2024 جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی آئندہ مالی سال کی شرح نمو 2.8 فیصد ہونے کا اندازہ ہے، ملک میں مہنگائی میں آئندہ مالی سال کمی آنے کی امید ہے، مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک آجائے گی۔ ایشیائی ممالک میں مقامی طلب و ترقی، برآمدات اور سیاحت بڑھنے سے خطے کی شرح نمو 4.9 فیصد رہنے کا اندازہ ہے، پاکستان میں اصلاحات پر عملدرآمد کیا گیا تو معاشی بحالی کا عمل اس سال سے شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کی شرح نمو رواں مالی سال 1.9 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام کو معاشی بحالی اور اصلاحات کیلئے اہم چیلنج قرار دیا گیا ہے۔پاکستان کو خواتین کی مالیاتی شمولیت کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، رواں مالی سال زرعی پیداوار اور صنعتی شعبے میں بہتری آنے کی امید ہے۔ تعمیراتی شعبے میں لاگت بڑھنے اور ٹیکس میں اضافے سے ترقی متاثر ہوئی ہے۔ آئندہ سال غذائی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ مثبت نمو کی طرف واپسی زراعت اور صنعت دونوں میں بحالی کے علاوہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں بحالی سے آئے گی جو اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت اور ایک نئی اور زیادہ مستحکم حکومت میں منتقلی سے منسلک ہے۔ نجی کھپت میں اضافہ اور مارکیٹ کے طے شدہ شرح تبادلہ کی جانب بڑھنے سے کارکنوں کی ترسیلات زر میں اضافے سے ترقی کو تقویت ملے گی تاہم اس گھریلو طلب موجودہ اخراجات میں اضافے اور سخت میکرو اکنامک پالیسیوں کی وجہ سے محدود رہے گی۔ رسد کے حوالے سے، سیلاب کے بعد زراعت کی بحالی سے ترقی میں اضافہ ہوگا۔ بہتر موسمی حالات اور سبسڈی والے قرضوں اور زرعی ان پٹس کے لئے سرکاری پیکیج کی وجہ سے پیداوار کم رفتار سے بڑھے گی جس سے زیر کاشت رقبے میں اضافہ اور بہتر پیداوار میں مدد ملے گی اور مہنگائی میں کمی نمایاں ہوگی۔ مالی سال 2025 میں افراط زر کی شرح کم ہو کر 15.0 فیصد رہنے کی توقع ہے کیونکہ میکرو اکنامک استحکام پر پیش رفت سے اعتماد بحال ہوا ہے۔ حکومت درمیانی مدت میں اہم مالی استحکام کا منصوبہ پیش کرتی ہے، جس میں محصولات میں اضافہ اور معقول اخراجات شامل ہیں۔ 2024 میں جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے بنیادی سرپلس اور جی ڈی پی کے 7.5 فیصد کے مجموعی خسارے کو حاصل کرنا ہے ۔درآمدی پابندیوں میں نرمی اور معاشی بحالی سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافے کی توقع ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ مالی سال 2024 کے پہلے 7 ماہ میں کم ہو کر 1.1 ارب ڈالر رہ گیا ہے جو مالی سال 2023 کے اسی عرصے میں 3.8 ارب ڈالر تھا، کیونکہ تجارتی خسارہ 30.8 فیصد کم ہوا۔ غیر یقینی بیرونی امکانات کے باوجود اس سال ترقی پذیر ایشیا کی مجموعی نمو مستحکم رہے گی، زیادہ تر معیشتوں میں شرح سود میں اضافے کے چکر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سیمی کنڈکٹر کی طلب میں بہتری کی وجہ سے سامان کی برآمدات میں مسلسل بحالی خطے کے وسیع پیمانے پر مثبت نقطہ نظر کی حمایت کر رہی ہے۔
پالیسی سازوں کو متعدد خطرات پر نظر رکھنی چاہئے جس سے بڑھتے ہوئے تنازعات اور جغرافیائی سیاسی تنائو، سپلائی چین میں خلل ڈال سکتے ہیں اور اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاو میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ امریکہ کی مالیاتی پالیسی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال، چین میں پراپرٹی مارکیٹ کا دباو اور خراب موسم کے اثرات خطے کے لئے دیگر چیلنجز ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پالیسی سازوں کو تجارت، سرحد پار سرمایہ کاری اور اجناس کی فراہمی کے نیٹ ورکس بڑھانے کے ساتھ شرائط میں نرمی کے لئے کوششوں تیز کرنا چاہئے۔اب پاکستان کے حالات یہ ہیں کہ اگر اوورسیز پاکستانی زرمبارلہ نہ بھیجیں تو ملک دیوالیہ ہو جائے ۔
٭٭٭