کامل احمر
سیلاب، طوفان، بارش اور قدرتی آفات (وائرس وبا) سے تباہی کوئی نئی بات نہیں ہے اس میں جانوں کا ضیائع بھی ہے اور مالی وسائل کا بھی نقصان ہوتا ہے۔حضرت لوت علیہ السلام سے نوح علیہ السلام تک اور اس کے ساتھ جنگیں ایک ملک کے حکمران کا دوسرے ملک پر قبضہ اور اس کے نتیجہ میں خونریزی اور غارت گری، یہ سب کچھ صدیوں سے چلتا آرہا ہے لیکن ان ساری آفتوں کے بعد بنی نوع انسان قابو پاتا چلا آرہا ہے، اپنے شعور کو اور اپنی حکمت عملی سے قوموں نے قابو پایا ہے۔جاپان امریکہ کی بمباری کے بعد ابھر کر ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ملائیشیائ، انڈونیشیا اور سنگاپور ملائیشیا سے نکل کر مثالی ملک بنے۔چین نے صدیوں سے جاگیرداری اور جاپان کی جارحیت سے نجات پائی اور دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا، کمیونسٹ نظام کے ذریعے جو اب سوشلسٹ بھی ہے۔ترکی ایک صدی مغربی طاقتوں کا پابند ہونے کے بعد کلی طور پر خودمختار ہوتے جارہا ہے، ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتر اور ترکی کے اردگوان نے مثالی ترقی کی۔جن جن ملکوں نے ترقی کی اور عوام کو خوشحال بنایا ان میں ایک بات مشترک تھی بدعنوانی کی سزا۔انگریز پوری دنیا پر ہر ملک کے جغرافیائی لحاظ اور وہاں کی معاشرت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کر گیا انہوں نے بھی عدل انصاف سے کام لیا۔قابلیت کو پرکھا اور مقامی لوگوں کو آگے بڑھایا اور خود نے بھی فائدہ اٹھایا ہندوستان سب سے بڑی مثال ہے اور پھر جب انکے خلاف آزادی کا نعرہ گونجا تو وہ ملک ان کے وارثوں کے حوالے کرکے چلے گئے کہ میاں اب تم حکمرانی کے مزے لوٹو، لیکن ہندوستان کے حکمرانوں اور تقسیم کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے آہستہ آہستہ لوگوں میں نفرتوں، تعصب اور ناانصافی کا زہر گھولنا شروع کردیا۔پاکستانیوں کو مسلمان ہونے کے ناطے پیارے رسول اور خلفاءراشدین کے دور کا انصاف اور فتوحات تو یاد ہیں۔انہیں یہ بھی یاد ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا تھا اگر دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی مر گیا تو خدا کو جواب دینا ہوگا۔حضور ﷺکی تعلیم جو قرآن کے مطابق ہے معلوم ہے لیکن عمل کرنے سے گریز کرتے رہے ہیں، اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں مدرسے اور دینی پیشوا ہیں لیکن صراط مستقیم پر چلنا ان کے لئے مشکل ہے ،سیاست کو دین کے ساتھ مل کر دین کا جو تیا پانچا کیا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تمام ادارے ملک کے لئے کم بلکہ ذاتی مقاصد کے لئے کام کر رہے ہیں نتیجہ میں عدلیہ جس کا بنیادی عنصر انصاف کی فراہمی اور بدعنوانوں کو سزا دینا ہے شامل نہیں ہے۔اسی طرح ہماری فوج کے جنرلز ایک خاص ایجنڈے کے تابع ہیں وہ سول حکومت کے ہر معاملے میں نگران بنے بیٹھے ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے پورے ملک میں عوام اور انتظامیہ کا ڈھانچہ سسک رہا ہے کچھ نہیں کر پا رہے جب ریٹائرڈ جنرل کیانی سے جنرل راحیل شریف اپنی جائیدادوں کو پروان چڑھانے میں مشغول، ہر کوئی ریٹائر ہوکر دوبئی، لندن، امریکہ اور آسٹریلیا میں کاروبار کر رہا ہے یہ سب بھگوڑے ملک اور قوم ابتری کی حالت میں چھوڑ کر عیاشیاں کر رہے ہیں۔انہوں نے کسی سے کچھ بھی اچھی بات نہیں سیکھی۔سپریم عدلیہ کے پچھلے تین ججز کے کرتوت تو یاد ہونگے۔رہی پولیس جو قانون کی عمل داری کراتی ہے مہا کرپٹ ہوچکی ہے کیونکہ یہ اب کرپٹ وزراءاور کرپٹ نااہل ڈپٹی کمشنر کی آلہ کار ہے۔تازہ مثالJUIکے بدنام زمانہ ملا فضل الرحمن کے چھوٹے بھائی ضیاءالرحمن کی ہے جو انیسویں گریڈ کا ملازم تھا اور کسی حکمت عملی کے تحت اسے حال ہی میں کراچی میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ عطا کیا گیا سندھ حکومت کے تعاون سے جس پر بیان بازی ہو رہی ہے ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحق نے کہا ہم اس فیصلہ کو رد کرتے ہیں۔علی امین گنڈا پور نے واویلا کیا کہ بغیر قابلیت اور بغیر کسی امتحان کے ضیاءالرحمن کو نامزد کیا ہے جس کی فیڈرل گورنمنٹ کو کوئی اطلاع نہیں مطلب یہ کہ بیورو کریسی کا بھی شیرازہ بکھر گیا ہے جعلی اسناد جن لوگوں کے پاس ہیں اور جو گورنمنٹ کے ا داروں میں ملازم ہیں انکی تعداد100ہزار سے بھی زیادہ ہے معلوم ہوا ہے۔ضیاءالرحمن کوPTIکے کراچی ونگ کے سیکرٹری سعید آفریدی کی حمایت حاصل ہے آپ سوچ سکتے ہیں کراچی جیسے اہم اور بڑی پورٹ سٹی جس کی حالت خراب ہے اور جو سیاست کا اکھاڑا ہے ان جیسے نااہل افسران کی نگرانی میں کیا ہوگی کہاوت ہے جاہل کبھی تعلیم یافتہ سے دوستی نہیں کرتا۔علم کی قدر علم والا ہی کرتا ہے سندھ گورنمنٹ جن کے ہاتھوں میں انکے نام مراد علی شاہ، ناصر شاہ، اور ایسے ہی کئی ہیں۔
اور آج ایک ٹویٹ جو کرکٹ کے وسیم اکرم نے دیا کہ جواب میں ناصر شاہ بلبلا اٹھے اور سفید جھوٹ بولے کہ کراچی کی حالت بارش کے بعد معمول پر ہے ا ور انہوں نے وسیم اکرم کو سیاست میں آنے کی دعوت دے دی۔5گھنٹے کی بارش نے کراچی کو ڈبو دیا۔اور کئی جانیں بجلی کے تار پانی میں گرنے سے ضائع ہوگئیں کرنٹ لگنے سے اور اس کی ذمہ داری لینے کے لئے کوئی تیار نہیں۔کاش اسلامی جمہوریہ کے کالے سفید کے مالک ولید مجید کے والدین سے پوچھیں اور ضمیر کوٹٹو لیں کہ ایک بچہ کو جوان کرنے میں کیا کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔یہ ناانصافی،یہ غفلت، یہ بدعنوانی ہم نہیں سمجھتے کسی بھی کافر ملک میں ہوتی ہیں۔تو کیا یہ خود کو مسلمان کہہ سکتے ہیں جو انسان ن ہیں بن سکتے۔اقتدار پیسہ اور غفلت سے آنکھیں بند کرکے عیاشیاں کرنا انکا شیوا ہے اور یہ باز نہیں آئینگے پاکستان کو بنے73سال ہونے جارہے ہیں لیکن عدلیہ،پولیس، سرکاری محکمے اور سیاست دان پہلے سے کہیں زیادہ رشوت مانگ رہے ہیں(مہنگائی بہت ہے)ایک اور قول ہے ظلم کی ناﺅ ڈوب جاتی ہے ناانصافی مل کو لے ڈوبتی ہے اور ایسا ہونے جارہا ہے عمران خان ہم پہلے کہہ چکے ہیں ملک کے مہا چوروں اور ڈاکوﺅں سے نہیں نبٹ سکتے سنا ہےNABکے بنائے گئے(چوروں ڈاکوﺅں کے لئے) قانون میں تبدیلی کا بل پاس ہونے جارہا ہے اور وہ بھی سیاست میں آئے شاہ دولہا کے چوہے،بلاول کے کہنے پر جو ہر دم میڈیا پر آکر ترقی کے دعوے جھوٹ کا سہارا لے کر کراچی کی حالت زار کو دیکھو عوام کسی معجزے کے انتظار میں ہیں۔