کامل احمر
احتساب کے نام پر پچھلے دو سال سے پاکستان میں جو گورکھ دھندہ ہو رہا ہے ایک عام انسان کیلئے معمہ ہے، پہلے نوازشریف کو چلتا کیا، پھر زرداری اینڈپارٹی کو ضمانت مل گئی، دونوں پارٹیاں کہہ رہی تھیں کہ NAB کے اختیارات کی جانچ ہونی چاہئے جبکہ تاثر یہ ہے کہ نیب نے تو کسی کو کوئی سزا نہیں دی اور بدعنوانی میں مزید بدعنوانی وہاں سے شروع ہوئی جب پانچ ججوں میں سے تین ججوں نے نوازشریف کوپانامہ پیپر کی جے آئی ٹی رپورٹ پر ملزم ٹھہراتے ہوئے مزید ریفرنس کیلئے نیب کے حوالے کیا تھا جبکہ آصف سعید کھوسہ اور گلزار احمد نے ملزم ٹھہراتے ہوئے یہ ریمارکس دیئے تھے کہ نوازشریف صادق اور امین نہیں ہیں، اس کے بعد جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے بالآخر بیماری کا بہانہ بنا کر وہ پتلی گلی سے قطری ایمبولینس طیارے میں لندن جا کر صحتیاب ہو گئے، تاحال واپسی کا کوئی امکان نہیں، مزید یہ کہ شہباز شریف بھی بھائی کی عیادت کیلئے لندن جا بسے ہیں، اس سے پہلے ضمانت پر رہا ہوئے اسحاق ڈار پہلے سے ہی لندن میں ہیں کہنے کا مطلب یہ کہ ہماری عدالتیں بھان مٹی کا کنبہ ہیں اور ملزمان ان کا کنبہ ہیں بھلا وہ کیونکر اپنے کنبے کو تکلیف دے سکتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے ضمانت دینے پر بڑا نام پیدا کیا ہے کہ لوگ طنزیہ کہتے سنے گئے ہیں کسی کو لاہور ہائیکورٹ میں لے جاﺅ ضمانت مل جائیگی۔ روس کے معروف ناول نگار دوستووسکی نے ایک ناول لکھی تھی Crime And Punishment ناول کا مرکزی کردار راسکولینکوف ہے جو جرم کرتا ہے نفسیاتی طور پر وہ خود کو ملامت کرتا ہے یہی سزا اس کیلئے کم نہیں ہوتی۔ ہماری ناول کا ہیرو نوازشریف ہے لیکن وہ اکیلا نہیں ہے جرائم کرنے میں لہٰذا نفسیاتی طورپر نوازشریف خود کو مجرم نہیں سمجھتا اور جب وہ اس سوچ سے بری ہے تو وہ ڈھٹائی کےساتھ خود کو قوم کا لیڈر جانتا ہے اور اپنے جرائم کو قوم کی خدمت جیسا کہ ہمارے عوام کہتے ہیں نوازشریف کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے جبکہ زرداری لگانے کی پابندیوں سے آزاد ہے اور کیمرے کے سامنے بڑی ڈھٹائی سے مسکراتا ہے۔ وہ ایک چالاک اور مکار اور ڈھیٹ مجرم ہے لیکن وہ خود کو مجرم نہیں سمجھتا اور کہتا ہے ثابت کرو اور اس ثابت کرنے اور نہ کرنے کے درمیان ہماری سیاست گھوم رہی ہے ملک بکھر رہا ہے۔ عمران خان آتا ہے لیکن اس کے ہاتھ پیچھے سے بندھے ہیں صرف چہرہ سامنے ہے اور یہ ہاتھ کس نے باندھے ہیں ہم سمجھتے ہیں اس کام میں امریکہ اس کے بعد آرمی، عدلیہ اور خود اس کے آدمی ہیں جن کے منہ کو لگام نہیں۔ ابھی تک عوام نے محسوس نہیں کیا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے جس کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا، ہم اگر عمران خان کی اب تک کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ایک دھندلی تصویر بنتی ہے اور نظر کچھ نہیں آتا۔ امریکی کہاوت ہے کام بولتا ہے لہٰذا کام کرنے والے کو خاموش رہنا چاہئے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ عمران خان سمیت ان کے وزراء وزیراعلیٰ اور ان کے چہیتے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں اور حزب اختلاف کو سخت سُست کہتے نہیں تھکتے، ہم نے کئی لوگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ عمران خان خود کو حاکم کُل سمجھتے ہیں لہٰذا کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں، یہ رویہ کرکٹ کے میدان میں تو ٹھیک ہے لیکن یہ سیاست کامیدان ہے کانٹوں پرچل کر منزل کو پہنچنا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کے راستے میں جو بڑے بڑے گڑھے ہیں وہ ان کی گاڑی چلانے سے قاصر ہے یقیناً فوج اس کے سامنے رکاوٹ ہے اور 21 توپوں کی سلامی پانے کے بعد باجوہ صاحب کو جو تین سال مزید ملے ہیں وہ صرف امریکہ کی ڈیمانڈ پر ملے ہیں کہ مزید تین سالوں میں امریکہ انڈیا کیلئے راہ ہموار کر دے گا جو ان کابزنس پارٹنر ہے اور اب چونکہ انڈیا ، امریکہ میں امریکیوں کو ہر ملازمت بھی فراہم کرے گا تو دوستی مضبوط مقبالتاً پاکستان دینے کی بجائے لئے چلا جا رہا ہے جو اس کی مجبوری ہے اور جال بھی ،جس میں وہ پھنسا ہوا ہے اور اس جال سے باہر آنے میں نہ تو سعودی عرب جو مدد کر سکتا ہے امریکہ کے اشارے پر چلے گا، ترکی اخلاقی طور پر دوست ہے، قطر مال کے بدلے مال کا قائل ہے اور ملائیشیا بھی اخلاقی تعاون دے سکتا ہے، مالی نہیں۔ چین نہایت ہی چالاک بزنس مین ملک ہے وہ پہلے اپنا فائدہ دیکھے گا وہ بھی امریکہ کےخلاف بیان بازی کی حد تک ہے حال ہی میں ملائیشیا میں ہونےوالی کانفرنس میں عمران خان کا شامل نہ ہونا بڑی بیوقوفی تھی ہر چند کہ امریکہ کا اشارہ تھا جو سعودی شہزادے عمران بمعہ فوجی کے بلوایا اور بقول ترکی کہ سعودی عرب نے دھمکی دی کہ وہ پاکستانیوں کو نکال دے گا اور سعودی پیسہ بھی بنکوں سے نکلوا لے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کیا بات ہوئی عمران خان کے ہاتھ پیچھے سے بندھے تھے لیکن دماغ تو نہیں کہہ سکتا تھاکہ شرکت سعودی عرب کیلئے فائدے کی بات ہے، لیکن شہزادے کے سامنے بولنا مناسب نہ تھا یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سعودی عرب کی حفاظت پاکستانی فوج سے زیادہ کوئی اور نہیں کر سکتا ،یہ بات وہ بھی جانتے ہیں۔
بیرونی فرنٹ پر پاکستان جیت نہیں سکتا لیکن اندرونی حالات کو سدھار سکتا ہے۔ پچھلے ہفتہ فیصلہ ہوا کہ نیب کے اختیارات کم کئے جائینگے اور 50 کروڑ سے کم کی خُوردبرد کرنے والے کو نیب تنگ نہیں کرے گی یہ عمران خان کی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ خود پی ٹی آئی میں ایسے لوگ ہیں جو نیب کی چھری تلے نہیں آنا چاہتے اور اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ عمران خان ایک بکھرا ہوا لیڈر ہے ۔وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے چوتھی بار کراچی کا دورہ کیا اور اس کراچی کے لئے جہاں کے لوگوں نے ان کو ایم کیو ایم کو خیر باد کہ کر ووٹ دیئے کیلئے کچھ خاص کام نہیںکر سکے ہیں، وہاں سڑکوں، بسوں، نکاسی آب، ناجائز قبضوں کےخلاف کچھ نہیں ہوا اور سب کو معلوم ہے اب رشوت پہلے سے زیادہ ہے اور آخری بات یہ کہ اگر عدلیہ معاشرے میں جرائم پیشہ لوگوں کو سزا نہیں دے گی تو ملک دھنستا چلا جائے گا اور مایوسی کا ڈیرہ ہوگا۔
٭٭٭