ہر سال امریکہ میں نومبر کے پہلے منگل کو مختلف سیٹوں کے انتخاب عمل میں آتے ہیں سب سے بڑا انتخاب صدارت کا ہوتا ہے اسکے ساتھ نائب صدر نتھما ہوتا ہے جو پارٹی منتخب کرتا ہے۔ صدر کے کسی وجہ سے مستعفی ہونے یا اسکے انتقال پر بلاکسی اُجلت کے نائب صدر بن جاتا ہے۔ چاہے وہ کہیں بھی ہو اور سفر کے دوران بھی ایسا ہوتا ہے۔ دوسرا بڑا انتخاب سینیٹر کا ہوتا ہے امریکہ میں ہر ریاست سے دو سینیٹر ہوتے ہیں۔ اس کی معیاد چھ سال ہوتی ہے اور کوئی پابندی نہیں وہ کئی بار لڑ سکتا ہے۔ رابرٹ بائڈ سب سے زیادہ لمبے عرصہ تک سینیٹر رہے 1959 میں آئے اور210 میں انتقال کے بعد 51 سال خدمات دیں۔ اسکے بعد کانگریس کے لئے انتخاب ہوتا ہے جس کی معیاد دو سال ہے اور وہ جب تک چاہے لڑ سکتا ہے امریکہ میں ان کی تعداد ریاست کی آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے اس نومبر میں صرف چھ سیٹوں کے لئے الیکشن ہیں اور اس وقت کانگریس اور سینیٹ جو قانون بنانے والے ادارے ہیں میں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے مطلب ڈیموکریٹ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کانگریس کل435 ووٹ ہیں۔
اب ہم آتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے کیا کیا ہے جس سے ری پبلکن پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے لیکن ساتھ ہی ڈیموکریٹ پارٹی میں ہر کوئی اپنی بولی بول رہا ہے اور پبلک کی دلچسپی دونوں پارٹیوں سے ختم ہوچکی ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی نے پچھلی صورت میں کچھ نہیں کیا لگتا تھا حکومت کوئی اور چلا رہا ہے اور وہ کانگریس میں شاید اتنی سیٹوں کا اضافہ کر پائیں کہ جس سے انکی تعداد 218 ہو جائے اور وہ ری پبلکن پر برتری حاصل کرسکیں۔ بائیڈین اور اسکے بعد صدر ٹرمپ دونوں نے مل کر اپنی اپنی پارٹیوں کو ناقابل برداشت نقصان پہنچایا ہے۔ کہ امریکن جو ریپبلکن پر اعتماد کرتے تھے اب بدل چکے ہیں کہ دونوں پارٹیوں نے عوام کو دور کردیا ہے اور اس ڈر سے وہ اپنے الیکشن فلاٹر میں نہیں لکھ رہے کہ وہ کون ہیں دونوں کو ڈر ہے کہ پارٹی بنیاد پر وہ ووٹ حاصل نہ کرسکیں۔
اب آئیں پہلے پہلے ہم نیویارک بلکہ پورے ملک میں لوگوں میں گرمی پیدا کرنے والے الیکشن کا ذکر کریں اور تمام امریکنز کی نگاہیں چاہے وہ نیویارک کے ہوں یا دوسری ریاست کے نیویارک میں ہونے والے میئر کے تاریخی الیکشن پر لگی ہوئی ہیں۔ 15 دن پہلے اگر کوئی ہم سے پوچھتا کہ ممدانی (ظہران کو امی ممدانی) کیا میئر بن سکے گا تو ہمارا جواب تھا ہر چند وہ ڈیموکریٹ کی سیٹ پر جیتا ہے لیکن ڈیموکریٹ نہیں چاہتے کہ وہ میئر بنے۔ سب سے پہلے پرائمری میں ہارے میئر ایرک آدم نے کی کہ دو دن خاموشی کے بعد وہ پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ نے اپنی انگلی چلائی کہ ممدانی کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا اور نعرہ لگا وہ سوشلسٹ ہے دوسروں نے بھی کمیونسٹ کہنا شروع کردیا یہ جانتے ہونے عوام دونوں پارٹیوں کی دھاندلیا جان چکے ہیں وعدے کے علاوہ وہ کچھ اور نہیں کرنا چاہتے۔ ٹرمپ صدر چاہتے تھے کہ اینڈریو کیو مومیئر بنے اور انہوں نے ایرک آدم کو باہر ملک میں سفیر بنانے کا وعدہ کیا اور بٹھا دیا۔ یہ دنوںباتیں ممدانی کے فائدے کی نہیں۔ کہ افریقی امریکن کے ووٹ اب ممدانی کے ہیں کہ انہیں بھی صدر ٹرمپ سے نفرت ہے۔ ایک اور بات ہوئی کہ نیویارک کی گورنر ہوچل نے ممدانی کو سپورٹ دینے کا اعلان کردیا اور اس کے علاوہ امریکن میں مقبول ورمائونٹ کے سینیٹرر برنی سینڈرز نے بڑے محش وخروش سے ممدانی کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہر چند کہ انکا ووٹ نہیں لیکن برنی سینڈرز پر امریکن کو بھروسہ ہے۔ ایک اور بڑی بات ممدانی کے حق میں ہوئی کہ نیویارک اسٹیٹ کی پچھلی اٹارنی جنرل لتیشیا جیمز کو صدر ٹرمپ پر مقدمہ کرنے کی پاداش میں مجرم قرار دیتے ہوئےFBI نے مقدمہ کردیا جو کہ صدر ٹرمپ کی انتقامی کارروائی تھی۔ دوسرے عوام بھی لتیشیا جیمز کے قابو میں آئے۔ ممدانی نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لتیشیا جیمز کے حق میں بول کر افریقی امریکن کو اپنا بنا لیا ادھر آخری DE BATE میں ممدانی نے کیومد کو بالکل چت کردیا۔ ممدانی نے اپنی کرشماتی گفتگو اور ہر جگہ جاجا کر لوگوں نے دل موہ لئے کہ ذہن میں سب کے ایک ہی بات ابھری کہ ایک نوجوان کو ووٹ دیا جائے ہمارے یہاں کے ٥٣ سالہ مشاہدے میں پہلی بار یہ چیز دیکھنے کو ملی کہ کہہ سکتے ہیں۔ پاکستانی، بنگلہ دیش گورے، افریقی اور ہسپانوی سب ممدانی کو اپنا بنا چکے ہیں اور یہ کامیابی ممدانی نے تن تنہا حاصل کی ہے جب کہ اس کے والدین دونوں ہی پڑھے لکھے ہونے کے علاوہ یہاں کی کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ممدانی کی ماں، میراناٹرہالی وڈ فلم انڈسٹری کی جانی پہچانی فلم میکرز ہیں۔ مدر انڈیا کے بعد میرانائر کی لکھی ہدایت کی ہوئی فلم ”سلام بمبئی” اکاڈمی ایوارڈز میں نامزد ہونے والی فلم ہے انکی اور فلمیں مسی یسپی مصالحہ مون سون ویڈنگ میرانائر کی بنائی فلمیں ہیں۔ ممدانی نے اپنی ماں یا باپ کے نام کو Carh نہیں کرایا۔ مزید تفصیل میں جائے بغیر ہم کہینگے کہ ممدانی نیویارک سٹی کے میئر بننے جارہے ہیں۔ اور ساتھ ہی وہ امریکہ میں عوامی سوچ بدلنے جارہے ہیں ساتھ مسلمانوں کے آگے سیاست میں بڑھنے کا راستہ بھی بنانے جارہے ہیں اگر ممدانی الیکشن ہارتے ہیں تو ہم کہینگے گھپلا ہوا ہے کسی نے کرایا ہے سب جانتے ہیں۔
ممدانی کے الیکشن کے بعد ویلی اسٹریم میں ایک پاکستانی نوجوان دوبارہ قانون ساز پوسٹ (LEGISLATOR) کے لئے الیکشن میں جارہے ہیں ناسور کائونٹی میں کائونٹی کے اکلی حکام (EXECUTIVE ) کے لئے دوبارہ آرہے ہیں انہیں آپ میئر کہہ سکتے ہیں۔ تیسری شخصیت سنتھیانونوز ہے۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی کے لئے این ڈونالی ہیں اور بھی ہیں اور بلیک مین سمیت سب کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹیکس کم کردینگے بلیک مین نے بہت دعوے کئے ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں ہمیں مذاق لگتی ہیں دو اور بہن بھائی ہیں جو عرصہ سے ویلی اسٹریم پر سوار ہیں لیکن کبھی اگر ان سے ملاقات کا سوچیں یا فون کریں تو غائب ہوتے ہیں۔ لہذا کس کو بھی ووٹ دیں ویلی اسٹریم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی سوائے اس کے بڑے بڑے کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹور کھل رہے ہیں اور چیف ایکزیکیوٹو کی طرف سے انہیں CITATION دی جارہی ہیں اور دینے والے اپنا بزنس بھی بڑھا رہے۔ ہیں۔ اگر ویلی اسٹریم کی سڑکوں پر کھڈے ہیں پانی کا بل بڑھ گیا ہے یا سڑکوں پر ایک ایک میل کے فاصلے سے ریڈ لائٹس کیمرے لگے ہیں تو انہیں جو الیکشن میں لڑ رہے ہیں کوئی مطلب نہیں پاکستانی کسی چیز کی شکایت نہیں کرتے وہ ہر جمعہ کو اسلام پھیلانے مساجد میں آتے ہیں۔ اللہ اللہ خیرصلیٰ !!!۔
٭٭٭٭٭٭














