“ناا±میدی میں دیا محبت جلائیں!!!

0
373
شبیر گُل

شبیر گُل

زندگی کے پنہاں خانوں میں جب پک ڈنڈیوں پے ا±ڑتے ہوئے پرندے پرواز کرتے ہیں تو سورج کی کرنیں ایک ایسی جگہ چلی جاتی ہیں جہاںانسان اپنے ادراک سے دور ہوتا ہوا شفق کے ا±س پار چلا جاتا ہے جہاں زندگی انتہائی خوشنماءنظر آتی ہے۔ وہ تخیلات میں فضاو¿ں میں ا±ڑتا اور سمندروں پر تیرتا ہے۔ اور جب اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لیتا ہے تو ا±سے ہر نعمت کا لطف آتا ہے۔ ہر رنگ بھلا محسوس ہوتا ہے۔ ہرصبح ،تہذیب کا گجر ،ہر شام عرش بریں اور ح±سن کی رعنائیوں سے مزین نظر آتی ہے۔ ہر رات ستاروں کی جھلمل اور بادلوں کی ا±وٹ میں چاند۔چندا ماموں دکھتا ہے۔ سہانی، چاندنی رات کا یہ منظر آنکہوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون فراھم کرتا ہے۔ اور نئے دن کی نوید لیکر آتا ہے، دن کے اجالے کا ذکر کریں تو سورج کا جاہ وجلال ،رب ذواالجلال کی کبریائی کا گرویدا بنا چھوڑتا ہے۔ وہ رب کبریا فرماتے ہیں کہ انسانوں پر رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔یہ سب شکر سے حاصل ہوتا ہے،ذوق شکر رحمان کا قرب عطا کرتا ہے جس سے عجز کی آبیاری ہوا کرتی ہے۔ ہم اکثر ،زندگی کی خوشنمائی، دلفریبی میں بہک جاتے ہیں ا±سکا شکر بھول جاتے ہیں جس نے زندگی کی ہر پکڈنڈی پر رنگ و بو کی بہاریں سجا رکھی ہیں، ا±سکے احسانات پس پ±شت ڈال دیتے ہیں۔
اگرہم انانیت کے جھروکوں سے نکل کر طلوع آفتاب اور دن ڈھلنے کا دلنشیں منظر ، آنکھوں میں مزین اور دل میں مقید کریں تو زندگی کی حقیقت ہم پر ایسے ہی افشاں ہو گی۔ جیسے ہم نے سورج کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھا ہے۔ یہ زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ دراصل انا کے موسم کو استغفار کی شبنم سے معطر کرنے کا نام شکر ہے جو انسانی درخت کو جلابخش کر تناور بناتا ہے۔ تناور درخت ماحول کو وہ سایہ فراہم کرتا ہے جو شکر ،عجز اور انکساری کا غلام بنا چھوڑتا ہے۔ یہ انسانیت کی عمدہ شکل ہے۔ جیسے پھول کے خوشنما ہونے کی دلیل ا±سکی خوشبو ہے۔ اشفاق احمد کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی کے لئے پھول نہیں بنتے تو پھر کانٹے بن جاتے ھیں۔ ؟ جو تکبر کی علامت ہے۔ خدارا لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کئجے۔آسمانوں کی بلندیوں کے ساتھ گہرائی کو دیکھنے کا حوصلہ پیدا کیجئے۔بے سہارا کی طاقت بنئے۔
یہ جو غریبی ہے اسے کسی موسم سے غرض نہیں ہوا کرتی ،اس کے لئے سارے موسم ایک جیسے ہوا کرتے ہیں۔ اسکا صرف ایک ہی موسم ہے،بھوک کا موسم ،یاد رکھیے یہ موسم کبھی بھی کسی پر آ سکتا ہے۔ ہم چونکہ اندر کے احساس سے خالی ہیں،اسی لئے دوسروں کی حساسیت کا اندازہ نہیں کر پاتے۔ایک دیہاتی کسی شہر میں فٹ بال کھیلتے ہوئے لوگوں کو دیکھتا ہے۔ اس نے قریب میں کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا۔ چاچا اس گیند کی کیا غلطی ہے جو سارے ملکر اسے لاتوں سے مار رہے ہیں۔اس پر بزرگ نے جواب دیا کہ اس گیند کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ یہ اندر سے خالی ہے وگرنہ کسی کی کیا مجال کے اسے لاتوں سے مارے۔آج ہمارے کردار کی یہی حالت ہے کہ ہم اندر سے خالی ہیں۔خالی برتن کی آواز بہت اونچی ہواکرتی ہے۔
موجودہ دور میں ہم مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایمان بس زبان پر ہے۔ اندر سے خالی ہے۔ آئیے منفی رویوں کو چھوڑ کر مثبت سوچ اپنائیں تاکہ دوسروں کے لئے راحت کا سماں ہو۔ موسم کے نظاروں اور اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کیجئے۔محبت کے پھول بن جائیے۔ناا±میدی سے لوگوں کو باہر لائیے۔
کسی کو کسی چیز کی ا±مید دلانا بہت اجر کا کام ہے۔ مشکل میں لوگوں کے کام آنا انسانیت کی معراج ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین انسان وہ ہے جو فائدہ مند ہے۔ یعنی جو شخص بغیر کسی غرض کے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اللہ رب العزت اور جناب رسول اللہ کے نزدیک وہ بہترین انسان ہے۔ اسکا عمل ،اور گفتار اس کا حسن ہے۔
انسان کا حسن و جمال اسکا کردارشکر ہے۔
کردارشکر زندگی کی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ روح کو بالیدگی فراھم کرتا ہے۔ ا±مید کا تصور دیتا ہے۔ فردوس بریں سے موج نسیم عطاءکرتا ہے جو ا±سی مالک کا انعام ہے۔ وہی توسب کا خالق ہے۔
جب انسان اللہ کی نعمتوں کو نہیں مانتا۔ وہ بھروسہ کی کمزوری کا مرتکب ٹھہرتاہے۔ جسے سے زندگی میں ناا±میدی جنم لیتی ہے۔ نا ا±میدی انسان کو کمزور کرکے ،مایوسی پیدا کرتی ہے جو ایک گناہ ہے۔ گناہ اعتماد میں لغزش پیدا کرتا ہے جو عجز اور شکر سےدور کردیتاہے۔ عجز اور شکر ہمارے اندر احساس پیدا کرتا ہے۔ آج ھمارے اندر لوگوں کے لئے درد نہیںحالانکہ درد کسی نہ کسی شکل میں ہماری اپنی زندگی میں موجود ہے۔ سانس کی آمد و ش±د سے ہی زندگی کی بہاریں ہیں۔
جو لوگ سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوئے انہیں نہیں معلوم زندگی کی حقیقت کیا ہے ، ناا±میدی کا درد کیا ہے۔ اس لئے بے حس کامجبور کی لاچاری سے کیا تعلق،درحقیقت تکلیف کے سہنے سے ہی درد کا احساس ہوتا ہے۔ اس ناا±میدی میں لوگوں کے لئے مرہم بن جائیے ، دوسروں کے درد کو محسوس کیجئے۔آپ کی زندگی اگر درد کے بغیر گزری ہے تو آپ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here