ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
حضرت امام محمد باقرؑ تاریخ ولادت کے مختلف قول ہیں لیکن صحیح یہ کہ آپؑ کی ولادت یکم رجب 57ھ کو ہوئی۔ آپ کا دور بھی مثل اپنے پدر بزرگوار کے وہی عبوری حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں شہادت حضرت امام حسینؑ سے پیدا شدہ اثرات کی بنابنی امیہ کی سلطنت کو ہچکولے پہنچتے رہتے تھے۔ مگر تقریباً ایک صدی کی سلطنت کا استحکام ان کو سنبھال لیتا تھا۔ بلکہ فتوحات کےا تبار سے سلطنت کے دائرہ کو عالم اسلام میں وسیع تر کرتا جاتا تھا۔
حضرت امام محمد باقرؑ خود واقعہ کربلا میں موجود تھے اور گوطفولیت کا دور تھا یعنی تین چار برس کے درمیان عمر تھی۔ مگر اس واقعہ کے اثرات اتنے شدید تھے کہ عام بشری حیثیت سے بھی کوئی بچہ علیحدہ نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ نفوس جو مبداءفیض سے غیر معمولی ادراک لے کر آئے تھے وہ اس کم عمری میں جناب سکینہؑ کےساتھ ساتھ یقیناً قید و بند کی صعوبت میں شریک تھے۔ اس صورت میں انسانی و دینی جذبات کے ماتحت آپ کو بنی امیہ کےخلاف جتنی برہمی ہوتی ظاہر ہے۔ چنانچہ آپ کے بھائی زید بن علی ابن الحسینؑ نے ایک وقت ایسا آیا کہ بنی امیہ کے مقابلے میں تلوار اٹھائی۔ اسی طرح سادات حسنیؑ میں سے متعدد حضرات وقتاً فوقتاً بنی امیہ کےخلاف کھڑے ہوتے رہے۔ حالانکہ واقعہ کربلا سے براہ راست جتنا تعلق حضرت امام باقرؑ کو رہا تھا اتنا جناب زید کو بھی نہ تھا۔
چہ جائیکہ حسنی سادات جونسبا دوسری شاخ میں تھے۔ مگر آپ کا وہی جذبات سے بلند ہونا تھا کہ آپ کی طرف سے کبھی کوئی اس قسم کی کوشش نہیں ہوئی اور آپ کبھی کسی ایسی تحریک سے وابستہ نہیں ہوئے۔ بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے دور کی حکومت کو مفاد اسلام کے تحفظ کیلئے اسی طرح مشورے دیئے جس طرح آپ کے جد امجد حضرت علی ابن ابی طالبؑ اپنے دور کی حکومتوں کو دیتے رہے تھے۔ چنانچہ رومی سکوں کی بجائے اسلام سکہ آپ ہی کے مشورہ سے رائج ہوا جس کی وجہ سے مسلمان اپنے معاشیات میں دوسروں کے دست نگر نہیں رہے۔باوجود اس کہ زمانہ آپ کے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدینؑ کے زمانہ سے بہتر ملا۔ یعنی اس وقت مسلمانوں کا خوف و دہشت اہل بیتؑ کےساتھ وابستگی میں کچھ کم ہو گیا تھا اور ان میں علوم اہل بیتؑ سے گرویدگی کی بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پیدا ہو گئی تھی۔ کوئی دوسرا ہوتا تو اس علمی مرجعیت کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا لیتا مگر ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام محمد باقرؑ مسلمانوں کے درمیا ایک طرح کی مرجعیت عام حاصل ہونے کے باوجود سیاست سے کنارہ کشی میں اپنے والد بزرگوار کے قدم با قدم ہی رہے۔بے شک زمانہ کی سازگاری سے آپ نے واقعہ کربلا کے تذکروں کی اشاعت میں فائدہ اٹھایا۔ اب واقعہ کربلا پر اشعار نظم کئے جانے لگے اور پڑھے جانے لگے۔امام زین العابدینؑ کا گریہ آپ کی ذات تک محدود تھا اور اب دوسروں کو ترغیب و تحریص بھی کی جانے لگی۔ (جاری ہے)
اس کے علاوہ نشر علوم آل محمد کے فریضہ کو کھل کر انجام دیا گیا اور دنیا کےد ل پر علمی جلالت کا سکہ بٹھا دیا گیا۔ یہاں تک کہ مخالفین بھی آپؑ کو باقر العلوم، ماننے پر مجبور ہوئے۔ جس کا مفہوم ہی ہے، علوم کے اسرار و رموز کو ظاہر کرنے والے، اس طرح ثابت کر دیا کہ آپ نے کردار میں انہی علی ابن ابن ابیطالبؑ کے صحیح جانشین ہیں۔ جنہوں نے پچیس برس تک سلطنت اسلامیہ کے بارے میں اپنے حق کے ہاتھ سے جانے پر صبر کرتے ہوئے صرف علوم و معارف اسلامیہ کے تحفظ کا کام انجام دیا۔ وہی ورثہ تھا جو سینہ بہ سینہ حضرت محمد باقرؑ تک پہنچا تھا۔ نہ امتداد زمانہ نے اس میں کہنگی پیدا کی تھی اور نہ اس رنگ مدہم بنایا تھا نہ تسلسل مظالم کے اثر سے انتقامی جذبات کے غلبہ نے ان کو بنیادی مقاصد حیات سے غافل کیا۔