ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی
ایک روز عہد طفولیت میں حسب عادت میں اپنی زمینوں پر ڈھور ڈنگر چرا رہا تھا اور میرے دادا جی بابا ملک شیر محمد امین زمینوں کو پانی لگا رہے تھے۔ میں نے دیکھاہمارے گاو¿ں کا ایک ما شکی (ماچھی)ہماری زمینوں سے گز رہا تھا۔اسکا قد سارے گاو¿ں والوں سے چھوٹا تھا۔ اسی لیے اسے عطا یا گلچدہ پکارا جاتا تھا، میرے دادا جی کو سارے گاو¿ں والے بابا پکارتے حتی کہ انکے کزن بھی۔میں نے ضمنا ایک روز دادادا جی سے پوچھا تھا کہ سارا گاو¿ں آپکو بابا پکارتا ہے ، کوئی ایسا بھی ہے جو بابا نہ کہتا یا کہتی ہو ؟ تو دادا جی حسرت و یاس کی آہ بھرتے ہوئے فرمانے لگے !
نہ پکار سکنے والی تیری دادی مر گئی ہے، انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ! اس گلچدے نے اس روز زمینوں سے گزرتے ہوئے دادا جی سے کہا بابا ! آج سارا سندرال مجھ سے ڈر گیا۔ دادا جی جو کمال کے عقلمند تھے ،برجستہ فرمانے لگے۔ گلچدہ کہیں تو نہر پر ننگا تو نہیں نہا رہا تھا ؟ تو گلچدہ قہقہہ لگا کر کہنے لگا واہ بابا واہ مان گیا ہوں۔ ظاہر ہے جب کوئی بھی گلچدہ نہر پر کھڑا ننگا نہا رہا ہو گا تو شرفاءتو منہ پھیر کر ہی چلیں گے،
اب گلچدہ خوش ہو !!! اور اپنی بہادری کے قصیدے پڑھے تو یہ اسکی بے وقوفی ہے۔ واضح رہے نہ وہ راہگیر بزدل تھے نہ یہ گلچدہ شجاع تھا اسلئے کہ شریف لوگ ننگوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور ننگے اپنے تئیں خیال خام میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے میدان مار لیا ہے۔ آج سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ہی ہو رہا ہے کچھ گلچدے ننگی گالیاں دے رہے ہیں ، فحش کلامی کر رہے ہیں ، کارٹون بنا رہے ہیں ،تیا پانچا کر رہے ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھا رہے ہیں اور شریف اجتناب و احتراز کر رہے ہیں۔ شریف اپنی نیچر سے مجبور عضو معطل بن کر سائیڈ پر رہ رہے ہیں اور شیخیاں بگھارنے والے گلچدے پھولے نہ سماتے ہوئے اپنی شجاعت و بہادری کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ دادا جی نے دو تھپڑ لگائے دائیں اور بائیں گال پر گلچدے کے۔ پھرکسی نے مرتے دم تک گلچدے کو ننگا نہاتے نہیں دیکھا۔ میں نے ایک روز گلچدے سے مزاح میں پوچھا کہ نہر پر کب نہاو¿کے تو کہنے لگا دن میں تو نہا و¿نگا نہیں مگر رات میں لنگی باندھ کر ضرور۔ایسے گلچدوں کو تقدیر دو تھپڑ تو مارے گی اور وہ شرم و حیا کی لنگیاں تو پہنیں گے مگر وہ اس وقت سارے شہر نگر و دہر کو شرمسار کرچکے ہونگے۔ اے سوشل میڈیا کی گل چدو قضا و قدر کا تھپڑ آچکا ہے۔
لگنے سے پہلے توبہ کر لو !
میں تو جب بچھو نما دوستوں سے ڈسا جاتا ہوں تو گنگناتا ہوں
دیکھاجو تیر کھا گے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
جو گلچدے رات میں شب خون مارتے ہیں انہیں دیکھ کر شعر یاد آجاتا ہے
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
کہ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں داستانے
سوشل میڈیا سے باہر بھی ہم پر تو گلپاشیاں ہوتی رہی ہیں ،رشتے کے چچا ملک احمد ندیم قاسمی اعوان آف خوشاب کا شعر پڑھ کے غم غلط کر لیتے ہیں کہ
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
٭٭٭