علم فلکیات !!!

0
133
سید کاظم رضوی
سید کاظم رضوی

سید کاظم رضوی

محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آپ سب کو عید الاضحٰی کی مبارک باد قبول ہو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حج کے بابرکت مہینے سنت ابراہیمی کو قبول فرمائے اور اس وباءکرونا سے دنیا کو امان ملے اور ہر سال کی طرح لاکھوں فرزندان ِتوحید اللہ کے گھر کعبہ شریف پر حاضری دے سکیں جو لوگ امسال نہ جاسکے ان کا ارادہ تھا اللہ پاک ان سب کی نیتوں اور نیک خیال کو قبول فرمائے۔ ہر مسلمان جہاں اس بابرکت مہینے خوش ہے وہیں اس سال حج کی ادائیگی روائیتی مجمع کی غیر حاضری سے افسردہ بھی ہے ویسے تو لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک صاحب ایمان کلمہ گو کیلئے اس کی مذہبی مقامات مقدسہ اور فرائض کی ادائیگی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
گذشتہ مضامین میں جو موضوع تسلسل سے آپکی نظر رہے اس میں ایک الزام پیش گوئی کرنےوالے کو (غیب دان )استغفراللّٰہ بناکرپیش کرنا اور ان کے ایمان پر شک کرنا تھا جسکا اہل علم جواب دے چکے ہیں لیکن وہی دھاک کے تین پات کم عقل اور موٹی سمجھ بوجھ والے اب بھی کچھ ایسے اعتراضات اور منطقوں کو لوگوں کے سامنے کہتے پھرتے ہیں کہ بس الامان الحفیظ جب استادایک جماعت میں کسی طالبعلم کو ہوشیار اور زیرک پاتا ہے تو وہ اس کو مشورہ دیتا ہے کہ تم ڈاکٹر بنو یا وکیل بنو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ استاد قسمت کا حال بتانے والا ہے بلکہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک لائق طالبعلم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ عوام کی جان اور انکی عزت کسی ہوشیارذمہ دار انسان کے ذریعے ایسے کام کے ذریعے بچائی جائے جو اس کو دیگر جماعت کے طلبہ سے بہترانداز میں کرنے کی صلاحیت ہے وگرنہ ایک عام فہم و فراست والا انسان ڈاکٹر بنا تو لوگ اپنی جان سے بھی جاسکتے ہیں ایک غلط دواءخون میں نس میں لگا کر انسان کو زیادہ وقت نہیں دیتی تو انجکشن ایک قابل و ذمہ دار ڈاکٹر کی ذمہ داری کہ کون سی دوا کہاںکس مقدار میں دینی ہے۔۔۔ اسی طرح کوئی مذہبی رہنما عالم دین اگر نصیحت کرے کہ موت آنے والی ہے برحق ہے اگر برے کام کروگے اور سیدھے راستے پر نہ چلے تو دوزخ میں جاﺅ گے اب وہ رہنما قطعی طور پر کوئی قسمت کا حال نہیں بتا رہا۔بالکل اسی طرح منجم بھی قسمت کا حال بتانے والا نہیں ہے منجم جو یہ فقرہ استعمال کرتے ہیں کہ وہ مقدر کا حال بتاتے ہیں تو یہ ایک اصطلاحی اور مقرر کیا ہوا فقرہ ہے وہ دراصل مقدر کا حال بتانے والے نہیں ہوتے بلکہ ڈاکٹر ، استاد ، مذہبی پیشوا کی طرح اسباب عالم اور حرکات کواکب پر واقعات مرتب کرکے ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں جس کو بیان کردیتے ہیں۔علم نجوم ایک سائنسی علم ہے کیونکہ یہ علم کلی طور پر فلسفے سے متعلق ہے اور کوئی قانون اور علم اتنی رہنماءنہیں کرتا جتنا علمالنجوم کرتا ہے اور اس چیز کی ایک تاریخ اور ڈیٹا موجود ہے کہ کواکب کس طرح انسانی حرکات کو متاثر کرتے ہیں۔ نجوم کی سائنس کا سمک اثرات کو انسانی کردار و افعال پر حاوی کرکے مفعول بنانے کا اظہار کرتی ہے حال و مستقبل کے لیئے ہر دو طبقہ عورت اور مرد اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور خوش رہ سکتے ہیں بس یہی مقصد علم النجوم ہے۔ اب آتے ہیں تیکنیکی بحث کیطرف
کواکب :- کواکب کس طرح اپنے بروج کے حاکم ہیں کس طرح تمام بروج میں حرکت کرتے ہوئے اثرات ظاہر کرتے ہیں ؟؟
شمس۔ قمر۔ عطارد۔ مریخ۔ مشتری۔زحل۔ یورینس۔نپ چون۔پلوٹو ہماری کائنات کے کواکب ہیں۔
فرض کریں اگر آپ سورج پر رہتے تو ان تمام کواکب کی حرکت یکساں طور پر ایک ہی طرف نظر آئے گی وجہ یہ ہے کہ شمس مرکزمیں ہے اور تمام کواکب اس کے گرد ایک مقررہ رفتار سے گھومتے ہیں لیکن چونکہ ہم گھومنے والے کواکب میں سے ایک پر یعنی زمین پر رہتے ہیں اس لیئے سورج کو بھی اپنے گرد گھومتا پاتے ہیں اور دوسرے تمام کواکب کو بھی پھر ان کی رفتاروں میں بھی فرق پاتے ہیں کبھی الٹا چلتے دیکھتے ہیں کبھی سیدھا۔ طلوع و غروب بھی انکا نظر آتا ہے جبکہ دوری اور نزدیکی بنی معلوم ہوتی ہے یہ تمام حالات جو زمین سے کواکب کے نظر آتے ہیں وہی جاننے کے قابل ہوتے ہیں ان مختلف حالتوں سے جو اثرات زمین اور اس کے موجودات پر پڑتے ہیں ان خاص تغیرات کو جاننے کیلئے علم ہیئت اور نجوم کے حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ان دونوں علوم سے ہم صرف علم النجوم کا ہی ذکر کریں گے کیونکہ یہی ہمارا موضوع ہے۔
نیّر ین :- شمس و قمر کو کہتے ہیں۔ کواکب ان سیاروں کو کہتے ہیں جو ہمارے نظام شمسی کے رکن ہیں اور ہمیں حرکت کرتے نظرآتے ہیں۔ یہ دس ہیں۔ اور ستارے ان ثوابت کو کہتے ہیں جو ہمارے نظام شمسی کی حدود سے بہت دور غیر متحرک سے اور چمکتے نظر آتے ہیں یہ تو تھیں کچھ تشریحات و تعارف اس نظام سے متعلق جس کی کھوج میں انگریز آج بھی ہر سال کئی کئی سو کی تعداد میںمشن خلاءکی جانب بھیجتے ہیں اور اس کو یہ تحقیق کا نام دیتے ہیں کبھی مواصلاتی رابطوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی توجیح پیش کرتے ہیں !!۔۔
تو ثابت ہوا اوپر سے رابطہ کرنا ہو تو خود کو بلند کرنا پڑتا ہے اور سوچ کا زاویہ حدود میں رہ کر بدلنا پڑتا ہے جب تک ہم لوگ لکیر کے فقیر بنے رہیں گے اور تحقیق میں ڈر و خوف اور نئے راستے تلاش کرنے میں اپنے راستے سے بھٹکنے کا ڈر رہے گا تو مسلسل ہماری زوال کی داستانیں بھی لمبی ہوتی رہیں گی اب ہم کو زمانے کے ساتھ بدلنا ہے اور جدید دنیا میں اس کے تقاضوں کو۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here