کشمیر کو نجات کب ملے گی؟

0
246
جاوید رانا

جاوید رانا
اگست کامہینہ برصغیر کی تاریخ میں اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اب سے 73 سال قبل انگریز سامراج نے اس خطے سے اپنا تسلط ختم کیا تھا، برصغیر پاکستان کی تشکیل اور بھارت کی آزادی کی صورت میں دو بڑی ریاستوں کے معرض وجود میں آنے کا حامل ہوا تھا۔ البتہ انگریز اپنی فطرت کے مطابق اور ہندو ذہنیت کے پس منظر میں لڑاﺅ اور حکومت کرو (Divide & Rule) کے تحت اس تقسیم میں ایک ایسا ناسور چھوڑ کر گیا جو آج بھی رس رہا ہے۔ تقسیم کا فارمولا یہ طے پایا کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہونگے اور بھارتی علاقے ہندو اکثریتی آبادی پر مشتمل ہونگے۔ ماﺅنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کی سازش سے پنجاب کے ٹکڑے کر دیئے گئے اور گورداسپورکو بھارت کا حصہ بنا کر نہ صرف پنجاب کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے بلکہ مسلم اکثریتی ریاست وادی¿ کشمیر جنت بینظیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا گیا۔ یوں تو دیگر مسلم ریاستوں حیدر آباد، جوناگڑھ اور مناوادر بھی ان ریاستوں کے حکمرانوں کی پاکستان میں شمولیت کی خواہش کے باوجود بھارت نے غصب کر لئے لیکن کشمیری عوام نے بھارت کی اس مذموم حرکت کےخلاف آزادی کی تحریک کا آغاز کر دیا اور ریاست پر بھارتی قبضہ کےخلاف آدھی ریاست آزاد بھی کرا لی جو آج ”آزاد کشمیر“ کے حوالے سے دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ مجاہدین کشمیر کی کامیابیوں سے خوفزدہ ہو کر بھارتی مہاشئے اقوام متحدہ میں پہنچے مگر وہ اپنے شیطانی عزائم میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کو متنازعہ ریاست قرار دیتے ہوئے، اس کی آزاد حیثیت اور آئینی تشخص برقرار اور فیصلے کیلئے حق خود ارادیت کے ذریعے الحاق یا آزاد ریاست کا درجہ رکھنے کا حق کشمیری عوام کو دیا گیا۔ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی حکومت نے آج تک اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، زور زبردستی اور ریاستی دہشتگردی سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے۔ کشمیری عوام اپنے پختہ عزائم و جذبے کےساتھ اب بھی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
72 سال کی اس طویل جدوجہد میں کشمیرکی چار نسلیں لاکھوں جانوں کا نذرانہ دے چکی ہیں۔ ہزاروں ماﺅں، بہنوں، بیٹیوں کی آبروئیں لُٹ چکی ہیں۔ پھول سے معصوم بچوں اور نوجوانوں کو آتشیں اسلحے سے زیرزمین سُلا دیا گیا لیکن کشمیریوں کے عزم کو دبایا نہیں جا سکا۔ عالمی ضمیر مردہ اور سویا ہوا ہے اور بھارت کے اس درندگی کے عمل پر کسی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھتی ہے پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی اخلاقی، سیاسی حمایت اور عالمی ضمیر کو بیدار کرنے نیز اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے سفارتی سطح پر اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور ابھی بھی کر رہا ہے لیکن بھارت پر اس کا کوئی اثر نہیں گزشتہ برس 5 گست کو بھارت کی ہندو پرست، جنونی حکومت نے اپنے آئین میں سے مقبوضہ کشمیر کی آزاد ریاست کی آئینی حیثیت ختم کرکے بھارتی یونین قرار دیکر ریاستی دہشگردی کی بدترین صورتحال پیدا کر دی۔ کشمیری عوام پر دس لاکھ فوج مسلط کر کے ظلم و بربریت کے وہ پہاڑ توڑے ہیں جن کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ گزتہ ایک سال سے بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاک ڈاﺅن کر کے ریاست کو دنیا کے سب سے بڑے قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ مظلوم عوام کا جینا حرام ہے۔ ضروریات زندگی ناپید ہیں، بیماروں کو دوائیں نہیں مل رہی ہیں۔ شیر خوار بچے دودھ سے محروم ہیں، تو نوجوانوں کو اُٹھا کر نامعلوم مقامات پر پہنچا دیا جاتا ہے یا شہید کر دیا جاتا ہے۔ عورتوں اور بچیوں کی بھارتی فوجی عصمت دی کر رہے ہیں جبکہ ہندتوا کا پجاری مودی اور اس کے جن سنگھی حواری مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے ہندوﺅں کو سرینگر و دیگر مقبوضہ شہروں میں بسا رہے ہیں۔ کاروباری و معاشی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ریاست کا دنیا بھر سے رابطہ منقطع ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل، سروس، میڈیا یا دیگر وسائل بند کر دیئے گئے ہیں۔ عوام پر مذہبی پابندیاں لگا دی گئی ہیں حتیٰ کہ عیدین کی نماز کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ استحصال کی اس سے بدترین شکل اور کیا ہو سکتی ہے؟
ذرا سوچیئے کرونا کے پھیلاﺅ سے روکنے کیلئے دنیا بھر میں پچھلے چند ماہ سے لاک ڈاﺅن کے باعث جو بدترین حالات ہوئے ہیں تو مقبوضہ کشمیر میں مودی کی جارحیت اور سال بھر سے لاک ڈاﺅن کے باعث مظلوم کشمیریوں پر کیا قیامت گزر رہی ہے۔ 72 سالوں سے لہو لہان وادی کو مودی اور بھارتی جنونیوں نے جہنم زار بنا دیا ہے لیکن چھوٹے چھوٹے واقعات پر دخل اندازی، احتجاج اور ملکوں، قوموں کو تاراج کرنے والی عالمی قوتوں کو توفیق نہیں ہو رہی کہ کوئی عملی اقدام کریں۔ حد یہ ہے کہ مسلم ممالک اور او آئی سی کے بھی کان پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ موجودہ حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی کشمیر کے حوالے سے کوششوں سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ او آئی سی نے مذمتی قرارداد پاس کی ہے۔ امریکی انتظامیہ و دیگر عالمی قوتوں اور اقوام متحدہ و انسانی حقوق کے اداروں نے کشمیری عوام کیلئے آواز بلند کی ہے لیکن مودی اور بھارتی مسلم دشمن اسٹیبلشمنٹ پر اس کا کوئی اثر ہوا ہے؟ ان کی کمینگی کا تو یہ عالم ہے کہ غیر جانبدار مبصرین اور میڈیا کو صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے آنے سے بھی منکر ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان کی کشمیریوں کی حمایت پر پاکستان سے ایل او سی پر چھیڑ خانیوں، عام شہریوں کی شہادتوں اور پاکستان میں اپنے کارپردازوں کے ذریعے دہشتگردی پر اُترے ہوئے ہیں 5 اگست کو انسانی تاریخ کے بدترین استحصال کا دن منانا تو اپنی جگہ لیکن کیا اس سے مظلوم کشمیریوں پر ظلم سے نکلنے کی راہ نکل سکتی ہے؟ دنیا کی مقتدر قوتوں اور عالمی اداروں کیلئے تو اپنے مفادات کے باعث اس مسئلہ کی اہمیت نہیں لیکن خود پاکستان میں اس مسئلہ کے حل کیلئے کیا ہو رہا ہے؟
کشمیر جسے قائداعظم نے پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا، اس پر سیاسی اشرافیہ چینل پر بیٹھ کر بحث مباحثے کر رہی ہے، میڈیا چسکے لے رہا ہے، کشمیر کے حوالے سے کوئی مثبت لائحہ عمل یا حکمت عملی سامنے نہیں آرہی ہے۔ کیا بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں جو گریٹ گیم کھیلا جا رہا ہے اس میں مظلوم کشمیریوں کو بھارتی غاصبانہ تسلط سے نکلنے کی کوئی راہ نکلے گی یا پھر لداخ کے حوالے سے چین کی طرح کوئی اقدام کرنا ضروری ہوگا کیونکہ مودی اور بھارتی جنونی لاتوں کے بھوت ہیں اور ان بھوتوں کو بھگانے کیلئے متحدہ قوم لازم ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم ایک متحدہ قوم ہیں؟ ہمارے سیاسی اکابرین اس وقت بھی کشمیر کے ایشو سے گریز کر کے اس پر توانائیاں صرف کر رہے ہیں کہ حکومت کیسے گرائی جائے، اے پی سی کی قیادت کون کرے، نیب کے چُنگل سے کیسے نکلا جائے۔ بلاول کو تو شاید یہ بھی نہ معلوم ہو کہ اس کے نانا شہید بھٹو نے کشمیر کی آزادی کیلئے ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ نوازشریف اپنے کاروباری مفاد کے باعث بھارت کےخلاف تو کیا کلبھوشن کےلئے منہ نہیں کھولتے اور فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کا چیئرمین ہوتے ہوئے بھی مزے لوٹتے رہے۔ میڈیا میں بیٹھے ہوئے بھارت کے زر خرید سونے پہ سہاگہ، ان حالات میں کشمیریوں کو نجات کب اور کیسے ملے گی؟
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here