جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
گزشتہ کالم میں ہم نے امریکی پاکستانیوں سے اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے اس امر پر اصرار کیا تھا کہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں تاکہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے تمام ممکنہ سہولتوں وسائل سے فیضیاب ہو سکیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنے پاکستانیوں نے ہمارے اس پیغام کو شرف قببولیت بخشا ہے ہماری بحیثیت قوم عجیب فطرت ہے کہ ہم آنے والے وقت یا مستقبل کے حوالے سے پہلے سے کوئی منصوبہ بندی یا اقدامات نہیں کرتے اور جب واقعات یا حالات سر پر پڑیں تو جاگتے ہیں اور سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے لگتے ہیں آخر کار وہ کیا وجوہ ہیں جن کے باعث ہم ان رویوں کے عادی ہیں، یہ روئیے انفردی ہی نہیں اجتماعی طور پر ہماری فطرت ثانیہ بن چکے ہیں اور یہ صورتحال وطن عزیز میں بھی ہے اور بیرون ملک پاکستانی کمیونٹی میں بھی بدرجہ¿ اُتم موجود ہے کم و بیش ہر شعبہ¿ زندگی اس روئیے سے متاثر ہے۔ دیکھا جائے تو ہمارا یہ مزاج وقتی نہیں بلکہ مستقل نظر آتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے سسٹم و نظام زندگی کسی بھی ابتلاءیا آزمائش میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس کے مظاہر آئے دن موقعہ بمعوقع ہر شعبہ میں دیکھے جا سکتے ہیں ان مظاہر کی بنیاد متذکرہ بالا معاشرتی مزاج کے علاوہ بتدریج سیاسی بالا دستی و مفادات بھی ہیں جنہوں نے ملکی سیاست، معاشرت، معیشت، خدمات کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ خود کردہ مسائل و معاملات کے باعث ہونےوالے حالات تو درکنار، قدرتی آفات کے نتیجہ میں پیش آنے والے حالات میں بھی سیاسی و مفاداتی شکر رنجیاں ترجیح بنا کر الزام ترشی و تہمت طرازی کا طوفان برپا کیا جاتا ہے اور حالات کی بہتری کو پس پُشت ڈال دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں کرونا کی وباءکے باعث جو منظر نامہ سامنے آیا، اس میں حکومت، سیاسی مخالفین حتیٰ کہ عوام الناس کے جو روئیے سامنے آئے وہ بخوبی آپ کے علم میں ہیں، وہ تو اللہ رب العزت نے کرم کیا اور کچھ وزیراعظم اور حکومت کی کوششیں بار آور ہوئیں کہ اس وباءکی تباہ کاریاں اس شدت سے نہ ہوئیں جس شدت سے امریکہ، اٹلی، بھارت اور دیگر یورپی ممالک میں ہوئیں، تاہم اس دوران وفاق و سندھ کے درمیان بالا دستی و حکمرانی کی چپقلشوں اور تنازعات نے ہمارے معاشتی مزاج و مفادات کی واضح تصویر کشی ضرور کر دی۔ بدلتی ہوئی ماحولیاتی صورتحال میں مون سون کی قدرتی آفات بارش کی صورت پاکستان کیلئے کڑی آزمائش بن کر سامنے آئیں۔ پاکستان کے تمام صوبے، شہر، قصبے اور گاﺅں اس سے متاثر ہوئے لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر دنیا میں آبادی کے اعتبار سے پانچویں بڑے شہر، ملک کے معاشی دارالخلافے اور واحد میٹروپولیٹن کی جو تباہی و بربادی ان بارشوں کے باعث ہوئی ہے اس میں قدرتی آفت سے زیادہ اس مزاج اور روئیے کا بڑا دخل ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے وقت سے پہلے مستبل کے پیش نظر مناسب منصوبہ بندی نہ کرنے کے ساتھ، سیاسی، منافقت، عصبیت اور مفادات اور کرپشن و لوٹ مار بھی ہے کون نہیں جانتا کہ کراچی جسے کسی وقت پر عروس البلاد (شہروں کی دلہن) اور روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا آج دنیا کے تباہ ترین غلاظت بدبو سے بھرے ہوئے شہر کا نقشہ پیش کر رہا ہے وہ شہر کہ جس کے حُسن اور رونقوں کو دیکھنے کیلئے نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرونی دنیا سے بھی لوگ جوق در جوق آتے تھے۔ آج اپنی بربادی پر نوحہ کناں ہے۔ اس شہر کے نظم و تزئین کے ذمہ دار سیاسی و انتظامی افراد و ادارے اسے نوچتے کھسوٹتے رہے۔ اپنی جیبیں بھرتے رہے، اپنی جائیدادیں بناتے رہے اور انتہائی تیزی سے وسعت پذیر اس شہر کی بہتری اور عوام کو ان کی رہائشی سہولتوں کےلئے بنیادی و ترقیاتی کاموں کو یکسر فراموش کر دیا۔ غیر قانونی قبضوں، چائنہ کٹنگ، نا اہلوں کی اداروں میں رشوتیں لے کر سیاسی بھرتیوں اور انہیں اپنی کمائی کے ٹاﺅٹ بنا کر استعمال کرنے کےساتھ شہر بھر کے پارکوں، کھیل کے میدانوں، نکاسی و فراہمی آب کے ذرائع پر ناجائز آبادیوں، بلڈرز مافیا سے ساز باز کر کے اونچے اونچے پلازوں اور سینکڑوں کی تعمیرات سے مال بٹورتے رہے اور شہر کا تمام نظام تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ اس مکروہ کھیل میں سب سے زیادہ خرابی کی ذمہ داری کراچی اور مہاجروں کی رہنمائی کی دعویدار ایم کیو ایم اور اس کے مفرور قائد الطاف حسین پر آتی ہے اپنے سیاسی منظور نظر لوگوں کو بلدیاتی و دیگر شہری اداروں میں گھسا کر، ہر جائز ناجائز طریقے سے مال بنوایا گیا ہر غلط کام کروایا گیا، اور شہر بد سے بدتر ہوتا چلا گیا۔ ترقیاتی کاموں کے جو منصوبے بنائے گئے ان کا حال یہ ہوا کہ شہر میں معمولی بارش ہوئی تو انڈر پاس ندی نالے بن گئے۔ اسٹریٹ لائٹس کے معاملات ہوں، صفائی کے کام ہوں یا دیگر شہری فرائض ہر جگہ ابتری و بد انتظامی کا راج ہی رہا۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو اس شہر کی حالت مزید ابتر کر دی گئی۔ پیپلزپارٹی نے جو گزشتہ 12 سالوں سے سندھ میں حکمرانی کے مزے لوٹ رہی ہے شہری سندھ خصوصاً کراچی کے عوام کو کبھی بھی اون نہیں کیا، اس ترمیم کے بعد آئینی تقاضوں کے برعکس شہری اداروں کو یا تو اپنے زیر اختیار کر لیا یا ان کے متعدد محکموں کے انتظامی اختیارات لے لئے ۔نتیجہ یہ کہ جو تھوڑا بہت کام ہوتا تھا وہ بھی ختم ہو گیا، پیپلزپارٹی کے بعض و عداوت کا یہ حال ہے کہ بلدیاتی و شہروں کے بجٹ بھی کم کر دیئے گئے گزشتہ انتخابات میں کراچی سے تحریک انصاف کے 14 اراکین قومی اسمبلی کے انتخاب اور سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے دوسری بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنے کےساتھ ہی پیپلزپارٹی کی کراچی دشمنی جلتی پر تیل ثابت ہوئی۔ حالیہ بارشوں کے نتیجے میں کراچی کا جو حال ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا ہے۔ عموماً برسات میں نشیبی اور کچی بستیاں و علاقے متاثر ہوتے دیکھے جاتے تھے سڑکیں اُدھڑ جاتی تھیِ ندیوں، نالوں اور بجلی کے مسائل سامنے آتے تھے لیکن اس بار اس شہر کی جو حالت ہوئی ہے وہ دنیا کے کسی بھی غریب ملک کے بدترین شہریا قصبے سے بھی بدتر ہے۔ ڈیفنس جیسے پوش علاقے سے لے کر سرجانی ٹاﺅن و نیا ناظم آباد تک ناقابل بیان ہیں۔ پورا شہر وینس کی طرح کشتیوں کا شہر بنا ہو اہے پانی کے بہاﺅ اور کرنٹ لگنے سے 50 سے زائد افراد (بزرگ، جوان، بچے، بچیاں) لقمہ¿ اجل بن چکے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہونے کے باعث مال و متاع ختم ہو چکے ہیں۔ غریب و متوسط طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کہیں کسی بیٹی کے جہیز کے بہہ جانے پر غم و اندوہ ہے تو بہت سے خاندان اپنے گھر اور چھت سے محروم ہیں۔ اپنا سہاگ اور سہارا ختم ہونے پر بیوہ کی آہ و بُکا عرش ہلا کر رکھ دیتی ہے تو دوسری طرف ماں باپ اپنی جوان اولاد کے چلے جانے پر ماتم کناں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی جو سارے ملک کے لوگوں کے بُود و باش اور وسیلے کا وارث تھا آج خود لاوارث ہو گیا ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔
اس وقت جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں کراچی کے حالات جوں کے توں ہی ہیں، پیپلزپارٹی کی کراچی دشمنی تو ایک کھلا معاملہ ہے، افسوس یہ ہے کہ موجودہ حکمران جماعت جس کو کراچی نے گزشتہ انتخابات میں بھرپور مینڈیٹ دیا تھا وہ بھی اعلانات اور سیاسی جو لانیوں تک ہی محدود نظر آرہی ہے تحریک انصاف کی حکومت کے صدر کراچی سے ہیں، سندھ کے گورنر رکراچی سے، 14 اراکین قومی اسمبلی کراچی سے ہیں جبکہ پی ٹی آئی و ایم کیو ایم کے آدھے درجن وزراءو مشیروں کا تعلق کراچی سے ہے لیکن ابھی تک کوئی بھی اس شہر اور عوام کی دادرسی کیلئے عملی طور پر سامنے نہیں آیاہے۔ چینلز پر بیٹھ کر ہمدردیاں اور علمی اقدامات کے دعوے کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی نظر نہیں آتا۔ اس بگڑے ہوئے نظام میں حالات کی بہتری کیلئے بھی ہمارے عسکری اداروں، آرمی و نیوی کے عمال ہی میدان عمل میں ہیں۔ ہمیں تو ایک دانشور کی بات ہی صحیح نظر آتی ہے کہ کروڑوں افراد کا وارث ملک کو 60 فیصد سے زیادہ زر فراہم کرنے والا کراچی لاوارث ہو گیا ہے، اس کا کوئی وارث نہیں ہم نے بہت عرصہ قبل عرض کیا کہ بہتری کیلئے نظام کو بدلنا ہوگا، کیا یہ وقت آگیا ہے؟
٭٭٭