یہ سیاست ہے میری جان!!!

0
168
کامل احمر

کامل احمر
نوبل پرائز کمیٹی ہو یا امریکہ کا پرنٹ میڈیا، دونوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو خراج تحسین پیش نہیں کرینگے جو دکھی اور مظلوم لوگوں کی خدمت کرتا رہا ہے ،اس میں سب سے پہلا نام عبدالستار ایدھی کا آتا ہے اور بین الاقوامی پریس بھی ان کی خدمات سے غافل نہیں لیکن ان کی بجائے نوبل پرائز ملالہ کو دیا جاتا ہے، صرف پاکستان میں ہی نہیں امریکہ اور برطانیہ میں بھی سیاست اور اپنے فائدے کی بات ذاتی مقاصد میں شامل ہو چکی ہے،ا بھی بھی یہ متعصب میڈیا اسلام فوبیا سے باہر نہیں آیا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ اس کا پرچار کرتا رہتا ہے ،یہ سیاست ہے اور لڑانے والا اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ یہ بات ہم خلیج ٹائمز (جس کی کوئی اہمیت نہیں) کے سروے سے متاثر ہو کر نہیں لکھ رہے جس کے تحت عمران خان سے بہتر لیڈر پاکستان کو ابھی تک نہیں ملا اور عوام کو ان پر بھرپور اعتماد ہے اور نہ ہی ہم مخالف سیاستدان اور ان کے حامی پاکستانی میڈیا کی شرارت آمیز باتوں سے متاثر ہیں کہ وہ عمران خان کے نام سے پہلے سلیکٹڈ لگاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو جنرلز کی پسند پر آتے ہیں اور اگر عمران خان کو بھی جنرلز کی قُربت حاصل ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ 22 سال سے یہ شخص دن رات ملک اور عوام کیلئے بھاگ دوڑ کر رہا ہے، دنیا کو معلوم ہے کہ وہ جرا¿ت آمیز بات کرتا ہے آج کی دنیا میں کسی بھی مسلم ممالک کے سربراہ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے اور اس صورت میں جبکہ آپ پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا قرضہ ٹنوں کے حساب سے ہو، تو آپ کو ان کی مرضی کا پابند ہونا پڑتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی پریس عمران خان کی ان کوششوں کو نہیں سراہتا۔ وہ نوبل پرائز کا حقدار نہیں بنتا لیکن اوبامہ کو بغیر کچھ کئے نوبل پرائز مل جاتا ہے اور اس دفعہ بھی ٹائم میگزین نے جسے ہم پچھلے کئی برسوں سے تنزلی کی طرف جاتا دیکھ رہے ہیں کہ اب وہ ویکلی کی جگہ پندرہ روزہ ہو گیا ہے اپنی تازہ اشاعت 5 اکتوبر میں جن 100 متاثر کر دینے والے لوگوں (ہم شخصیات نہیں کہیں گے) کی پہچان کرائی ہے۔ اس میں عمران خان کا نام نہیں، ٹائم میگزین کے ایڈیٹر، ایڈورڈ فیل مینتھل کی رائے یا نظر میں ایسے بیسیوں نام ہیں جنہیں امریکن نہیں جانتے۔ اگر ہم صرف لیڈران کی فہرست دیکھیں ان میں بھی کچھ ایسے نام ملتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں یہی کہہ سکتے ہیں کہ Who Knows Who کے تحت یہ فہرست تیار کی گئی ہے۔ سوائے چین کے جن پنگ، امریکہ کے صدر ٹرمپ، جوبائیڈن (اس لئے کہ وہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کے مقابلے پر ہیں) جرمنی کی انجلا مرکل جن کی لیڈر شپ کی دنیا گواہ ہے۔ کملا ہیرس اور نینسی پلوسی عوام میں کوئی اثر نہیں چھوڑ سکی ہیں، جو نائب صدر کی امیدوار ہیں اور دوسری خاتون برسوں سے اپنے والد کی میراث پر سیاست میں رہتے ہوئے ہاﺅس اسپیکر بنی ہوئی ہیں ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میڈیا کیلئے جو ایک زمانے میں ہر بات کی ضمانت اور فیصلہ کنا ثر چھوڑتا تھا بہت سال پہلے صحافت کے کسی شخص نے کہا تھا جب سی این این کے برنارڈ شاہ اور سی بی ایس کے والٹر کرناکائٹ کا دور تھا، بے بی بوم سے کم توقعات ہیں کہ وہ قارئین کو متاثر کر سکیں اور اپنے نقطہ¿ نظر سے متاثر کر سکیں۔ اور ایسا ہی ہو رہا ہے یہ بات صرف صحافت کے میدان تک نہیں بلکہ ہر شعبہ میں بزنس کے لحاظ سے ناپی تولی جا رہی ہے، چاہے وہ حالیہ وائرس ہو یا دواﺅں کا کاروبار ہو، تعلیم ہو یا سیاست خدا بھلا کرے ان لوگوں کا بل کلنٹن تک جو عوام کیلئے سہولتیں پیدا کر گئے ایک ایسا نظام بنا گئے کہ جو خود بخود عمل پیرا ہے اور عوام کو انصاف ملتا ہے اور ملتا رہے گا جب تک اس میں تبدیلی (بُری) نہیں لائی جاتی۔
پاکستان میں بھی عوام کی فلاح و بہبود کا بھی تقریباً وہی نظام ہے جو باہر کے ملکوں میں ہے لیکن اس پر عمل درآمد جوئے شیر ہے اور یہ نظام رشوت ستانی کے جال میں جکڑا گیا ہے۔ اب عمران خان کچھ بھی کر لے عوام کو کسی بھی طریقے سے سہولتوں کی فراہمی ناممکن ہے۔ کراچی کے مسئلے کو ہی لے لیں، ڈھائی کروڑ آبادی کا بے سہارا شہر لنگڑا رہا ہے، سیاست دانوں اور لٹیروں نے اس کے ہاتھ پیر توڑ کر ڈال دیا ہے۔ رفاعی اور فلاحی اداروں کے سہارے چل رہا ہے ایمبولینس کا دنیا بھر میں سب سے بڑا نظام حکومت نہیں فلاحی ادارے چلا رہے ہیں یہاں یہ بھی لکھتے چلیں کہ دنیا میں سب سے بڑا دستر خوان بھی ایران، سعودی عربیہ یا ترکی میں نہیں بلکہ پاکستان کے ہر بڑے شہر بالخصوص کراچی میں ملک ریاض کی نگرانی میں ہے، وہ پاکستان کا بہرام ڈاکو یا انگلینڈ کا رابن ہڈہ ے فرق اتنا ہے کہ غریبوں سے چھین کر غریوں کو ہی کھلاتا ہے اور با اقتدار طبقے کی مانگ بھی پوری کرتا ہے، بحریہ ٹاﺅن بنا کر۔
پاکستان میں ہمارے اندازے کے مطابق ڈاکوﺅں اور چوروں کی مجموعی تعداد گیارہ کروڑ ہوگی، ان میں گورنمنٹ اداروں میں کام کرنے والے جو رشوت لئے بغیر کام نہیں کرتے، بیوپاری جو دوکانوں میں آٹے دال اور شکر کی بلیک مارکیٹنگ کرتے ہیں سیاستدان جو دولت چُرا کر دوسرے ملکوں میں گھر بناتے ہیں اپنے بچوں کیلئے کہ پکڑے نہ جائیں ابھی حالیہ خبر بہت چونکا دینے والی نہیں لیکن عوام کیلئے دلچسپ ہے کہ شہباز شریف کو نیب نے اندر کر دیا ہے کاش یہ شروعات ہو اور نیب سندھ میں بھی بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکوﺅں کو اندر کرے نہ صرف بلکہ ان سے ڈاکے کے پیسے بھی نکلوائے ،کام تو یہ نیب کر رہی ہے کسی کی نگرانی میں (ضروری ہے) لیکن ہر کسی کا نشانہ عمران خان ہے ۔اس کا حال یہ ہے کہ اُدھر ڈوبے ادھر نکلے اور ادھر ڈوبے اُدھر نکلے اور ہمارا کہنا بھی یہی ہے جو پنجاب کی بینظیر بھٹو کہتی ہے جنہوں نے آج ایک تیر عاصم باجوہ اور ان کی امریکہ میں لا تعداد فرنچائز بزنس پر پھینکا ہے گویا وہ جیل جانے کیلئے تیار ہیں لیکن ایسا ہوگا نہیں کہ جیل بھیجنے والے مصروف ہیں ،ڈیوٹی انجام دینے میں دوسرے معنوں میں یہ سیاست ہے میری جان۔
ساتھ ہی کراچی کے حالات پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے 14 اکتوبر کو یوم یکجہتی منانے کا اعلان کر دیا ہے کراچی کو ایک با اختیار نعمت اللہ کی ضرورت ہے یہی بات ذرا مختلف انداز میں مصطفی کمال کر چکے ہیں کراچی صوبہ ہی کراچی کا حل ہے اور مقبول صدیقی نے عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور کیوں نہ کریں۔ کراچی پر کمیٹیاں جن کی تعداد پانچ ہے بن چکی ہیں لیکن معاملہ وہیں کا وہیں اگلے مون سون تک رہے گا، اب فوج ہی کچھ کر سکتی ہے صوبائی حکومت میں گھسے ڈاکوﺅں کو نکالنے کا کام، اگر وہ کراچی کو اپنا اور سب کا شہر سمجھتے ہیں مہاجروں کے علاوہ!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here