شبیر گُل
ایک مسجد سے اعلان ہو رہا تھا کہ حضرات ایک بابا جی گ±م ہو گئے ہیں جن کا دماغی توازن درست نہیں جن کو ملے وہ اپنے پاس رکھ لے کیونکہ بابے سب کے سانجھے ہوا کرتے ہیں۔قارئین ! پاکستان پر مسلط تمام بابے ۔نواز شریف ہوں یا زرداری۔ عمران خان ہوں یا شہباز شریف۔فضل لرحمن ہوں یا الطاف حسین۔ یہ سٹھیائے ہوئے پاگلوں کا ٹولہ ہے جنہوں نے قوم کو بیووقوف بنا رکھا ہے ۔یہ قوم کی امانت ،قیمتی ہیرے اور قومی ورثہ ہیں ، ایک نے ورلڈ کپ جیتا ہے ، دوسرے نے ایٹمی دھماکہ کیا ہے تیسرے نے کراچی ڈبویا ہے ۔چوتہے نے بوری بند لاشوں کے تحفے اور مولانا نے علماءکے وقار کومجروع کیا ہے ۔ ان بابوں کوپاگل خانے میں داخل کر کے قوم کی جان چ±ھڑائی جائے۔نہ لوگ تبدیلی کے جھانسے میں آئیں ، ناایشین ٹائیگر کے جھوٹے خواب دیکھیں اور نہ ہی مودی کے یاروں کو پنپنے کا موقع ملے۔ان پ±رانے بابوں کی پولیٹیکل ایلیٹ اور اداروں کا اکثر ٹکراو¿ رہتاہے ،ہر جماعت میں ایک گروپ اسٹبلشمنٹ سے اور دوسرا اپوزیشن کا کردار ادا کرتا آرہا ہے ، حسن نثار کا کہنا ہے کہ فوج سے تعلقات عمران ہی نبھا سکتا ہے ، باقی تو سارے تاجر ہیں۔ اس نے بالکل ٹھیک کہا تاجر تجارت تاجروں سے ہی کرتے ہیں ، اس لیے ستر سال سے ملک کا بیڑا غرق ہوا۔ اب تجارت اناڑی سے کی گئی ہے ۔ جو نہ تاجر ہے اور نہ ہی تجربہ رکھتا ہے ، صرف منافق ہے جس نے گندم، چینی اور آٹا ڈیلروں کو اپنی گود میں بٹھا رکھا ہے ۔ن لیگ کا ایک گروپ ،لیگ کو مزاحمت لیگ کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے سرخیل نواز شریف اور مریم صفدر ہے جبکہ مفاہمت لیگ کو شہباز شریف کی حمایت حاصل ہے ۔دونوں بھائی گ±ڈ کاپ اور بیڈ کاپ کا کردار ہیں۔ لیگ کی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کی تاریخ رہی ہے ۔کنونشن لیگ ہو یا جونیجو لیگ یا ن لیگ ،ان کو ڈکٹیٹروں کی حمائت رہی ہے ۔نواز شریف چونکہ بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کے م±ہرہ بن چکے ہیں اسلئے کبھی کبھی پھ±وکے فائر ،اپنے آقاو¿ں کو راضی کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف کے ذریعے بیک ڈور ڈپلومیسی ہوتی رھی ہے ۔سیاسی لوٹے احتساب کے ڈر سے لانڈریوں میں دھل کر (نئے نکور)بن گئے۔لانڈری زدہ ٹاک شوز میں ہاتھ میں چموٹا پکڑ لیتے ہیں۔ ن لیگی رہنماءطلال چوہدری کی لوہے کے راڈ اور ڈنڈوں سے پٹائی پر ایک بابے کا کہنا ہے کہ چوہدری صاحب کوئی ہور حکم ہووے تے ضرور دسو ،ایتھے لتراں دی کمی نئیں۔اللہ کرے پاکستان کی تاریخ میں وہ دن بھی آئے ،جب پی ٹی آئی،ایم کیوایم،ن لیگ، پیپلز پارٹی کے چور ، ڈرامے باز ، دہشت گرد لیڈروں کی جوتوں اور لتروں سے ٹھکائی شروع ہو۔ لوگ جس دن ان بدمعاشوں سے ماضی کی کارکردگی کا حساب لینگے ،انشاءاللہ ا±س دن قوم کی تقدیر بدل جائےگی۔ “کچھ تو شرم کرو”ہم نکلے ہیں ریاست مدینہ بنانے، تین سو کنال گھر کا ٹیکس چند ہزار دے کر ریاست مدینہ کے خدوخال بیان کرتے ہیں، ہر بات سے م±کرنے اور جھوٹ بولنے کو یوٹرن کہتے ہیں۔ قارئین۔کہیں سے تو آغاز کرنا ہوگا،چوروں کو پھندا ڈالنا ہوگا ، حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں، فوج میں ہوں یا بیوروکریسی میں۔پولیس میں ہوں یا جوڈیشری میں۔ ایک بار آئین اور قانون شکنوں کو تختہ دار پر لٹکانا ہوگا۔
جب اسٹبلشمنٹ میں بیٹھے لوگ زمینوں اور پلاٹوں کو ہڑپ کرینگے۔ جوڈیشری میں بیٹھے منصف ،بیگمات اور بچوں کے نام پر بیرون ملک مراعات لینگے تو مجرم جج اور چور بے رحم ہونگے،چھوٹے چوروں کو بھی ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملے گا۔
موجودہ حکومت نے احتساب کو سیاسی انتقام بنا دیا ہے ۔ہیلی کاپٹر کیس ہو ،مالم جبہ، بی آر ٹی بسوں کی کرپشن ہو یا چینی مافیا، گندم مافیا ہو فارماسوٹیکل چوروں کا گروپ ، یہ سارے چور ورلڈ کپ بابے کی بغل میں بیٹھے ہیں۔
ہیلی کاپٹر کیس میں نیب پر دباو¿۔
دوا سازی کے معاملے میں قوم کو ڈھائی سو فیصد مہنگی دوائیوں کا ٹیکہ۔انتہائی ڈھٹائی سے موجودہ مہنگائی اور کرپشن کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پے گرا کر پارسائی کا دعوی مضحکہ خیز ہے ۔
یہ سیاسی گماشتے، انکے ہرکارے،فنکارے،وفا شعارے،ٹ±ن کارے، اور بدکارے،کبھی بھٹو کو زندہ کرتے ہیں ، کبھی شیر اک واری فیر۔ اور کبھی دھرنے کی شکل میں پارلیمنٹ کے باہر ،گندی شلواریں دھو کر پاک /صاف حاجی بن کر ا±بھرے ہیں۔
کل کراچی میں “حق دو کراچی کو”ریلی میں لاکھوں عوام کی شرکت سے ہواو¿ں کا ر±خ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔
پھول جیسے بچوں ماو¿ں بہنوں بزرگوں اور جوانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے حقوق کے لئے نکل پڑا۔شہر کراچی نفیس لوگوں کے جم غفیر نے ،ایم کیو ایم ، لنگڑے ، لولے،بھولے، کانے، دہشت گردوں ،بھٹو کے جیالوں ،تبدیلی کے یوتھیوں ،نواز کے پٹواریوں کو مسترد کر دیا۔آج شہر کراچی شہر جماعتی نظر آیا۔اے شہر کراچی جماعت اسلامی نے تجھے بہت کچھ دیا ہے ۔
یہ کئی سال پہلے کی بات نہیں اور نہ یہ تصویریں پرانی ہیں بلکہ یہ آج کی تصویریں ہیں نہ مرد نظر ڈالتا ہے اور نہ خواتین کی طرف کوئی دیکھتا ہے اس لیے یہ لوگ قابل تقلید ہیں یہ لوگ حیا اور حوا کی عزت جانتے ہیں یہ لوگ جانتے ہیں کہ جس عورت سے ہم پیدا ہوئے ہیں جس نے ہمیں دودھ دیا ہے اس کی عزت واحترام ہم پر فرض ہیں۔ انکے جلسوں میں جانے پر انکے والدین انکو تنقید کا نشانہ نہیں بناتے چونکہ یہ لوگ قابل تقلید ہیں ۔انکے جلسوں میں جانے پر انکی عزتیں تار تار نہیں ہوتی۔انکے جلسوں میں جانے پر انکو کپڑوں سے نہیں پکڑا جاتا چونکہ یہ قابل تقلید ہیں،محافظ ہیں۔ ان کے جلسوں میں جانے پر کسی خاتون پر سیٹاں اور نعرے نہیں لگائے جاتے ۔نہ کوئی خواتین کی طرف آنے کی جرات کرسکتا ہے۔یہاں پر ہر کارکن اسکا محافظ ہے۔ ہرفرد اسکا بھائی ہیں، یہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ نہیں بلکہ حیاءدار عورت بن کر آئی اور حیاءکے ساتھ گھروں کو واپس گئی ہیں، عزت کے ساتھ رخصت ہوئی قابل فخر بن گئی ہیں، سر ُاٹھا کر گئی ہیں۔
٭٭٭