جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
دنیا کی سب سے طاقتور ریاست امریکہ کے صدر یعنی امریکہ کے سب سے زیادہ با اثر عہدے کا انتخاب تکمیل کو پہنچا، موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق نائب صدر جوبائیڈن کے درمیان مقابلے کانتیجہ ڈیمو کریٹ امیدوار بائیڈن کے حق میں آیا، اس انتخابی معرکے میں جہاں امریکی انتخابات کے سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے وہیں دیگر ریکارڈز بھی بنے ہیں، 20 نومبر 1942ءکو پیدا ہونےوالے بائیڈن نے امریکہ کے معمر ترین صدر کا اعزاز حاصل کیا، واضح رہے کہ جوبائیڈن کو امریکہ کے کم عمر ترین سینیٹر منتخب ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے، 29 سال کی عمر میں جوبائیڈن نے یہ کامیابی 1972ءمیں پائی تھی۔ حالیہ انتخاب میں کمیلا ہیرس کا بطور نائب صدر انتخاب بھی ایک ریکارڈ بنا ہے، وہ امریکہ کی منتخب ہونے والی پہلی خاتون نائب صدر ہونے کےساتھ پہلی افرو امریکن ساﺅتھ ایشین امریکن ہیں جو اس عہدے کیلئے منتخب ہوئیں۔ غالباً یہ بھی ایک ریکارڈ ہی ہوگا کہ ٹرمپ اکیسویں صدی کے پہلے صدر ثابت ہوئے ہیں جو دوسری ٹرم کیلئے منتخب ہونے سے محروم ہوئے اور دوسری ٹرم سے محرومی کایہ واقعہ تقریباً 28 سال بعد ظہور پذیر ہوا، شاید یہ بات بھی غلط نہ ہو کہ امریکی انتخابات کی تاریخ میں کسی صدر کا انتخابات میں شکست کھانے کے بعد انتخاب کے چوری ہونے کے بیانیئے کی بنیاد پر وائٹ ہاﺅس نہ چھوڑنے پر اصرار ہو اور وہ اپنی بیوی، داماد اور اہم سیاسی ساتھیوں کے سمجھانے کے باوجود اپنی ضد پر اڑا رہے۔ انتخابات کے بعد مخالفین کی جانب سے اعتراضات، احتجاج اور نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے مظاہر تیسری دنیا کے ممالک خصوصاً پاکستان میں تو معمول کا رواج ہے لیکن وہاں بھی ایوان صدر یا وزیراعظم ہاﺅس نہ چھوڑنے کی ضد کی کوئی مثال نظر نہیں آتی، امریکہ تقریباً ڈیڑھ صدی سے جمہوریت اور غیر متنازعہ انتخابات کی شاندار روایات کا حامل ملک ہے، آخر وہ کیا عوامل ہیں جن کی بناءپر موجودہ صدر ٹرمپ اپنے لوگوں کے سمجھانے کے باوجود متذکرہ بالا روئیے پر ڈٹے ہوئے ہیں، اس وجہ کو جاننے کیلئے ہمیں صدارت کے دونوں امیدواروں اور امریکہ کے مروجہ نظام پر نظر ڈالنی ہوگی، امریکی صدر کا انتخاب دونوں سیاسی پارٹیوں، ڈیمو کریٹ اور ریپبلکنز کے نامزد امیدواروں کے درمیان تمام تر ریاستوں کے ووٹرز کے براہ راست ووٹوں کےساتھ متعلقہ ریاستوں میں متعینہ الیکٹورل ووٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو امیدوار متعلقہ ریاست کے اکثریتی ووٹ (پچاس فیصد یا زیادہ) حاصل کرے وہ الیکٹورل ووٹوں کی بناءپر سبقت حاصل کرتا ہے اور کامیاب قرار پاتا ہے، یقیناً قارئین اس طرز انتخاب سے بخوبی واقف ہیں کہ حق رائے دہی کیلئے پولنگ کے دن ووٹ ڈالنے کے علاوہ ارلی ووٹنگ اور پوسٹل بیلٹ (اِن میل) کا طریقہ مروج ہے۔ حالیہ الیکشن میں کرونا کی شدت کے باعث عوام نے اپنا ووٹ کا حق ارلی اور اِن میل کی صورت میں گزشتہ انتخابات کے مقابل کثرت سے استعمال کیا، اس بار ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد بھی امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ رہی، ہر دو امیدواروں کو معمول سے کہیں زیادہ ووٹ پڑے ہیں، ٹرمپ نے اپنی گزشتہ کامیابی کے ووٹوں سے بڑھ کر ووٹ حاصل کئے جبکہ بائیڈن نے پاپولر ووٹ میں ٹرمپ کے مقابلے میں 50 لاکھ ووٹوں سے سبقت لی ہے۔
ٹرمپ کا تعلق امریکہ کے اس طبقے سے ہے جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں اور زندگی کے ہر موڑ پر کامیابیوں کے ہی متمنی ہوتے ہیں، ٹرمپ کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں تو وہ ایک سیاسی رہنما کی جگہ سیلیبریٹی کی تصویر نظر آتا ہے۔ کاروباری سرگرمیوں، WWE اور دیگر شوبز و اسپورٹس سرگرمیوں میں مصروف عمل رہنے والاٹرمپ 2016ءکے الیکشن میں ہیلری کلنٹن کی پاپولر ووٹس کی اکثریت کے باوجود الیکٹورل ووٹس سے سبقت حاصل کر کے صدر تو بن گیا تھا لیکن امریکہ جیسی شاندار جمہوری اور مختلف النوع اکائیوں کی حامل ریاست و عالمی سپرمیسی کی طاقت کے صدر کے تدبر سے کوسوں دور رویوں اور بیانیوں پر عمل پیرا رہا۔ نسل پرستی، اسلحے کے خود حفاظتی پھیلاﺅ، امیگرنٹس کےخلاف ہرزہ سرائی و پابندیاں، اپنی فطرت کے باعث داخلی و خارجی محاذوں پر دوسروں کی تضحیک اور ریاستی پالیسیوں کے برعکس ہر ایشو پر بھانڈا پھوڑ دینا، ٹرمپ کی مقبولیت پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ بلیک لائیوز میٹر، مسلم و لاطینی (میکسیکن) و دیگر کمیونٹیز کیلئے استہزائی رویہ و عمل پذیری اور سب سے بڑھ کر کرونا کی موزی وباءکے حوالے سے غیر سنجیدگی اور چین کو اس وباءکے امریکہ میں پھیلانے کا پروپیگنڈہ ٹرمپ کی حالیہ انتخابات میں شکست کی وجہ اس حد تک بنے کہ ریپبلکنز کی حامی بعض ریاستوں سے بھی الیکٹورل ووٹس سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس کے برعکس جوبائیڈن جو گزشتہ 47 سال سے سیاسی جدوجہد اور ذمہ دارانہ سیاسی پوزیشنز پر داخلی و خارجی معاملات پر وسیع تجربے کا حامل ہے، اپنی کمپیئن میں وہ تمام اہداف واضح کرتا رہا جو امریکی ڈائیورسٹی اور داخلی و خارجی معاملات کے حوالے سے مثبت اشارئیوں کے حامل اور موافق نظر آتے تھے نتیجہ واضح طور پر سامنے آیا۔
ناز و نعم اور سفید فام بیانیہ کے تناظر میں پلا ہوا ٹرمپ اپنی شکست کو ہضم نہیں کر پا رہا ہے اور یہ انوکھا لاڈلا اب بھی کھیلنے کو چاند مانگنے پر بضد ہے۔ اِن میل ووٹوں کو بنیاد بنا کر وہ اپنی فتح کے چوری ہونے کا الزام لگا کر عدالتی جنگ کرنے پر آمادہ ہے، وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے انکاری ہے اور اس بات پر بضد ہے کہ انتظامیہ نے اسے سازش سے ہرایا ہے، اس کا تازہ ترین کارنامہ سیکرٹری ڈیفنس مارک ایسپر کو فائر کر دینا ہے۔ جو بائیڈن کےخلاف عدالتی جنگ اور دوبارہ ووٹوں کی گنتی کی منطق، ٹرمپ کی اسی ضدی فطرت کی عکاسی ہے جس کا مظاہرہ وہ نہ صرف اپنے دور صدارت میں کرتا رہا ہے بلکہ اپنے خاندانی اثاثوں سے اپنے رشتہ داروں کو محروم کرنے اور ٹیکس کے حوالے سے اپنے ہتھکنڈوں کے ذریعے کرتا رہا ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کا نظام اس قدر مدون و متعین ہے کہ اس سے محض مفروضے اور شور شرابے کی بنیاد پر کسی کو غیر ضروری رسائی نہیں مل سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے قریب ترین سیاسی و خاندانی رفقاءاسے اس اقدام سے باز رہنے کی تلقین کر رہے ہیں اور اپنی شکست کو با عزت طریقہ سے تسلیم کر کے وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنا ٹرمپ کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے لیکن کسی بھی لاڈلے کو ہمیشہ کھیلنے کیلئے چاند نہیں ملتا ہے۔ امریکی عوام ٹرمپ کی شکست پر خوش ہیں اور ہر ریاست، ہر شہر میں بائیڈن و ہیرس کی کامیابی پر جشن اس کا مظہر ہیں۔
٭٭٭