امریکہ میں الیکشن سب نے دیکھا بہت عرصے سے ہنگامہ تھا کے کون جیتے گا بہت کشمکش تھی کوئی ایک پارٹی کی طرف تو کوئی دوسری پارٹی کی طرف یوں آخر تک معلوم نہیں تھا کہ کون جیتے گا۔دونوں فریق ہر تقریر میں ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے۔ایک دوسرے کی حرکتوں کا مذاق اڑاتے اور ایک دوسرے کو نیچا کرتے رہے ووٹ دینے کے بعد بھی کچھ معلوم نہیں تھا کے کون جیتے گا۔جعلی ووٹوں کا الزام تو فراڈ کا الزام چلتا رہا مقدمے بازی تک نوبت آگئی آخر کار ایک پارٹی جیت گئی جیسا کے ہم سب جانتے ہیں کے مسٹر بائیڈن صدر بن گئے۔صدر بننے کے بعد ان کی جو تقریر تھی اس میں انہوں نے اپنا انداز بدل لیا اب وہ دوسرے فریق کے بارے میں کچھ کہنے کی بجائے انہوں نے کہا کے تمام امریکہ کے لوگ ایک ہیں اور اب ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ صرف امریکن ہیں۔یہی برائی ہوتی ہے جو ایک بڑے کو کرنے ہوتے ہیں اور اسی سے آپ کا وقار نظر آتا ہے۔سربراہ کوئی بھی ہو چاہے کسی ملک کا یا کسی بڑے گھر کا باپ ہو یا نانا ،دادا کسی بھی گھر کے سربراہ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے اور اس ذمہ داری کے لیے نہ صرف بہت ہمت طاقت چاہئے ہوتی ہے بلکہ آپ کو بہت عقلمندی سے بھی کام لینا ہوتا ہے۔یہ ذمہ داری اگر گھر کے سربراہ کی ہو تو اسے اپنے گھر والوں کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کے ہم سب ایک خون ہیں اور ہم کسی کے دشمن نہیں اسی طرح اگر ایک ملک کا سربراہ ہوتا ہے تو اسے بھی اپنے ملک کے تمام لوگوں کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کے اب ہم صرف ہم وطن ہیں اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں جیسے کے ہمارے وطن پاکستان میں سربراہ چاہے کسی بھی پارٹی کا ہو اسے صرف اپنی پارٹی سے محبت ہوتی ہے وہ دوسری کسی بھی پارٹی کو اور تمام عوام کو یہ نہیں کہتا کے اب جنگ کا وقت ختم ہوا۔لڑائی کے بعد جو جیتا اس کا دل بڑا ہونا چاہئے اور اسے سب کو معاف کر دینا چاہئے۔بعد میں کوئی بھی دشمن نہیں ہاں جیت پایا ہے پہلے جتنی زیادہ محنت کی جاسکتی ہے۔کہ میں جیتنے کے لیے اس کے بعد صرف اور صرف اپنے گھر کے لیے اپنی تنظیم کے لیے اور اپنے وطن کے لیے کام کریں یہ سبق ہم سب کو سیکھنا چاہئے اس میں ترقی ہے اور ایسے ہی قومیں قوت پکڑتی ہیں۔
٭٭٭