قومی ورثہ یا بھوت بنگلہ!!!

0
349
کوثر جاوید
کوثر جاوید

 

کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن

دنیا میں کوئی بھی کامیاب قوم اپنے ورثے تاریخ کلچر اہم روایات کو محفوظ رکھتی ہے تاکہ اپنے کارناموں سے آنے والی نسلوں اور دنیا کو آگاہ کرسکیں امریکہ میں یہ بڑے شہر میں میوزیمز کو یادگاروں کا جال بچھا ہوا ہے۔واشنگٹن ڈی سی بے شمار میوزیمز ہیں امریکن ہسٹری میوزیم بلیک ہسٹری میوزیم ایئر اینڈسپیس میوزیم لنکن میموریل جیفرسین میموریم جارج واشنگٹن میموریل ایگن بلڈنگ مانیومینٹ بلڈنگ اس طرح کئی عمارتوں کو محفوظ کیا ہوا ہے۔اور باقاعدہ عزت احترام سے ان یادگاروں اور تاریخی ورثے کی بھی کی جارہی ہے۔واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ کی پرانی بلڈنگ موجود ہے جو1950کی دہائی میں قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اصفہانی صاحب نے سفارت خانہ قائم کرنے کے لئے خریدی بعدازاں ان کو بلڈنگ کی رقم ادا کردی گئی۔پچاس کی دہائی سے لیکر2004تک یہ تاریخی بلڈنگ سفارت خانہ کے طور پر رہی امریکی محکمہ خارجہ نے واشنگٹن میں سفارت خانہ کی بلڈنگ کے لئے اراضی فراہم کی جس کا قرضہ نیشنل بینک سے پندرہ ملین ڈالر لیا گیا۔2004سے اب تک نئی بلڈنگ میں سفارت خانہ قائم ہے۔2315 میسMASSایونیو کی تاریخی بلڈنگ گزشتہ سولہ سال سے بھوت بنگلے کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔اس تاریخی ورثے کی مرمت اور مینٹنس پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاچکے ہیں۔سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر باقاعدہ اعلان کیا اس بلڈنگ کو قائداعظم سینٹر کا نام دیا جائے گا۔پاکستانیوں کے لئے کمیونٹی سینٹر قائم ہوگا۔جہانگیر کرامت، شیری رحمن حسین حقانی، جلیل عباسی جیلانی اعزاز چوہدری سب کے سب وقت نکالتے گئے۔نوازشریف کے دور حکومت میں بلڈنگ کو بیچنے کے لئے کمیٹی بنائی گئی جس کے سربراہ ناصر کھوسہ سفیر اور دیگر سفارت خانہ کے اہلکار شامل تھے۔کئی سال فارسیل کا اعلان ہوتا رہا آج تک حکومت پاکستان کے کروڑوں روپے اس بلڈنگ کی تدفین وآرائش کی نظر ہو رہا ہے۔موجودہ سفیر ڈاکٹر اسد مجید خاں کے مطابق اس بلڈنگ کو کرائے پر دینے کے لئے تیاری کر رہے ہیں ساٹھ ہزار ڈالر ماہانہ آفر کیا گیا ہے۔ابھی تک کوئی بھی خواہشمند پارٹی رابطے میں نہیں آسکی واشنگٹن ایریا میں کئی نام نہاد صحافی کمیونٹی رہنما سیاسی رہنما نے کبھی بھی یہ معاملہ نہیں اٹھایا کہ کس طرح پاکستان کے تاریخی والے کی بے قدری کی جارہی ہے۔اس پر ظلم غریب پاکستانی عوام کے کروڑوں روپے ضائع کئے جارہے ہیں۔بلڈنگ مرمت کے باوجود بھوت بنگلے کا نظارہ پیش کر رہی ہے۔سائیڈ کی اطراف میں خالی سوڈے کی بوتلیں، گزشتہ سولہ سال سے ایک کروڑ مہینہ کے حساب سے اربوں روپوں نقصان کا کون ذمہ دار ہے۔کیا اس قومی تاریخی ورثے کے بارے میں کوئی پوچھنے والا ہے کیا وجہ ہے کہ یہ بلڈنگ پاکستان سینٹر یا قائداعظم سینٹر کیوں نہیں بن سکتی اور پاکستانی کمیونٹی کے لئے سینٹر کیوں نہیں بن سکتا ،واشنگٹن کے سفارت خانہ میں ایک سو اہلکاروں میں سے چند اہلکار اس بلڈنگ پر کیوں نہیں لگائے جاسکتے امریکی اور پاکستانی دانشوروں کا مشورہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس قومی ورثے کو محفوظ کرکے یادگار قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے حکومت پاکستان دفتر خارجہ اور دیگر ذمہ داران سے گزارش ہے کہ واشنگٹن میں حکومت پاکستان کی ملکیت یہ تاریخی عمارت جس کی موجودہ قیمت20ملین ڈالر ہے کو محفوظ پاکستان سینٹر قائداعظم سینٹر یا قومی ورثہ کانام دیکر نہ صرف بلڈنگ کو محفوظ بنائیں اس میں پاکستان کے کلچر ثقافت مذہب رسم رواج بارے میں ادارہ قائم کردیں جس سے امریکیوں کے علاوہ پاکستان نئی اور پرانی نسل آگاہ ہوگی اور یہ بلڈنگ بھوت بنگلے کی بجائے پاکستان کے قومی ورثہ کے طور پر شمار کی جائے گی۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here