پیر مکرم الحق،انڈیانا
کسی بھی ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے اس ملک کی فوج کا مضبوط ہونا اور اس ملک کی عوام کیلئے اس فوج پر اعتماد کرنا اور احترام کرنا نہایت ضروری ہے اور تمام پاکستانی اپنے فوجی سپاہیوں کے لئے اپنے دلوں میں احترام رکھتے ہیں۔وہ اپنے دلوں میں جانتے ہیں کہ یہ سپاہی اپنے وطن کیلئے جان کا نظرانہ دینے سے بھی گریز نہیں کرینگے اور دشمن کے سامنے ایک چٹان کی طرح جم جائینگے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں موجود طبقاتی عدم برابری فوج میں بھی ہے۔جنرل اور ایک سپاہی کے مراعات اور مسائل میں زمین وآسمان کا فرق ہے پھر بھی وہ سپاہی اپنے افسران کے ہر جائز ناجائز حکم کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔یہی انکی تربیت ہے اور اس ڈسپلن کے بغیر فوج اپنا کام نہیں کر پاتی۔ایک سیاسی کارکن اپنے رہنما کو تو جواب دے سکتا ہے لیکن ایک فوجی اپنے سینئر کے سامنے اگر مگر نہیں کر سکتا۔اس کے برعکس ہر فوجی افسر اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے آئین پاکستان کی پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے۔جس کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دیہی کا عہد کرتا ہے۔اور اس پر لازم ہے کہ وہ آئین میں مقرر شدہ حدود میں رہتے ہوئے اپنا کام انجام دیں۔سپاہی اور افسران بالا کے درمیان ایک اور طبقہ ہوتا ہے جس میں لیفٹیننٹ سے لیکر کم ازکم میجر کے افسران شامل ہوتے ہیں۔یہ طبقہ معاشرے کے مڈل کلاس طبقہ کی طرح اس امداد پر اپنے افسران بالا کی جی حضوری کرتا رہتا ہے۔کہ کبھی میں بھی انہی افسران بالا میں شامل ہوجاﺅنگا۔ظاہر ہے یہ سارے میجر یا کرنل کے عہدوں تک بمشکل پہنچ پاتے ہیں۔فقطہ وہ افسران جو کسی جرنلوں کے منظور نظر ہوتے ہیںیا جن کی رشتہ داریاں اونیچے ایوانوں میں ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دس سے پندرہ فیصد بہترین افسران میرٹ کی بنیاد پر بھی آگے نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔فوج میں یہ بھی حقیقت ہے کہ پلاٹ اور پرمٹ کا کلچر جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت سے مزید پروان چڑہا اس سے پہلے فقطہ محدود افسران اس نعمت سے مستفید ہوتے تھے۔
1947میں جب پاکستان بنا تو اوائلی عرصہ میں برطانوی فوجی افسران کو برطانوی حکومت سے مستعار لیا گیا۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کا پہلا آرمی چیف اور دوسرا آرمی چیف برطانوی(انگریز)افسران تھے۔پہلا چیف فرینک مسروی تھا جو کہ چودہ اگست1947ءسے عہدے پرفائز رہے لیکن ان کے بعد جنرل ڈگلس گریسی آئے جنہوں نے مسلسل چار سال تک پاس فوج کی کمانڈ سنبھالی اور1951ءمیں ریٹائر ہوکر برطانیہ واپس سدھار گئے۔ایوب خان ایماندار(ہیری پور)ہزارہ کے رساردار(برطانوی فوج) میرداد کی گھر1907ءمیں پیدا ہوئے کچھ برس لیتے تو رسالدار میرداد نے ایوب خان کو تعلیم کیلئے ہری پور کے ایک اسکول میں داخل کیا لیکن ایک بچہ کیلئے پندرہ کلومیٹر پیدل چلنا مشکل تھا۔اسلئے ایوب خان گدھے پر سوار ہو کر اسکول تک جاتا تھا۔رسالدار میرداد کی خواہش تھی کہ بیٹا فوج میں افسر بن جائے لیکن بدقسمتی سے میرداد1926ءمیں وفات پا گئی لیکن ایوب خان نے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے فوج میں جانے کیلئے تگ ودو کی اور آخر کار1950ءمیں برطانی فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ مقرر ہوگئے۔1947ءجب پاکستان آئے تو وہ میجر کنفرم ہوچکے تھے۔یہاں پاکستان میں مسلمان پاکستانی افسران نہایت ہی قلیل تعداد میں تھے آتے ہی انہیں کرنل بنا دیا گیا اور1940میں انہیں بریگیڈئر کا رینگ دے دیا گیا۔1951میں جب برطانوی جنرل گریسی ریٹائر ہوئے تو انہیں پاکستانی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔1958ءمیں ایوب خان کی آرمی چیف کے عہدہ سے ریٹائرمنٹ میں ایک سال رہ گیا تھا۔تو انہوں نے مدت ملازمت میں توسیع کیلئے وزیر دفاع(خانہادر ایوب کھوڑو صاحب کو بغیر کسی اپوائنٹمنٹ کے اس طرح آرمی چیف کا آجانا اچھا نہیں لگا۔انہوں نے ایوب خان کو ایک گھنٹہ باہر انتظار کروایا۔ایوب خان کو وردی میں باہر سیکرٹری کے کمرے میں انتظار کرنا پڑا اپنی بے غرتی محسوس ہوئی سونے پر سہاگہ یہ کہ خان بہادر کھوڑو صاحب نے انکی درخواست وصول کرتے ہوئے انہیں بتا دیا کہ حکومتی پالیسی سرکاری افسران کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ہے بس پھر چند ماہ کے اندر ایک سازش کے تحت پہلے تو سکندر مرزا سے مارشل لا لگانے کا حکم نامہ لیا اور پھر کچھ ہی عرصہ میں انکو چلتا کردیااور حکومت پر مکمل قبضہ کرلیا جس شخص کو برطانیہ راج کی فوج میں انیس سال میں لیفٹیننٹ سے میجر کی ترقی مل سکی۔اسے پاکستان آکر میجر سے جرنل تک کی ترقی چار سال میں دے دی گئی لیکن یہ ترقی پاکستان کو راس نہیں آئی۔کچھ لوگ آج تک یہ کہتے ہیں کہ جی کچھ بھی ہو پاکستانی نے ایوب خان کی دور حکومت میں ترقی بڑی کی۔ترقی کے نام میں بائیس خاندانوں کو خوب نوازا گیا مزدور کی تنخواہوں اجرت میں60%(ساٹھ فیص) کی کمی ہوئی امیر اور امیر ہوگیا غریب غریب تر ہوگیا، معاشی ناہمواری اس حد تک بڑھ گئی کہ مزدور کو کسان باغی ہوگئے اور پھر انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک مسیحا مل گیا۔جس نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا نہ صرف نعرہ دیا بلکہ مزدور یونین بحال کیا کسان کو وڈیروں اور جاگیرداروں کی بربریت سے شکنجے سے آزاد کروایا۔ایک تحریک چل نکلی ایوبی دور کی شاعری کبھی مزاہمت اور انقلاب کی شاعری تھی۔جیل اورز تھانوں کی شاعری تھی استاد دامن، جالب، اور فیض احمد فیض کی بہترین شاعری بھی اسی دور کی ہے۔ایوب گیا تو یحیٰی آیا وہ گیا تو ضیا آیا تو مشرف آیا وہ گیا تو اب موجودہ حکومت آئی جو بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہے۔ظلم تو رہتا ہے مگر ظالم نہیں رہتا۔انشاءاللہ۔
٭٭٭٭