بائیڈن کی صدارت کا سفر شروع!!!

0
132
کامل احمر

 

کامل احمر

ہر چار سال بعد امریکہ کے دارالخلافہ واشنگٹن ڈی سی میں عالیشاں صدارتی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں جیتنے والے صدر امریکہ کی صدارت کی سیٹ پر قانونی طور پر براجمان ہوجاتے ہیںاور آئندہ چار سالوں میں آنے والے ملک کو درپیش مسائل اور اندرونی خلفشاری سے پاک کرتے ہیں۔اس دفعہ امریکہ کو بیرونی مسائل کا سامنا نہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے دور کی کوئی بھی جنگی تباہ کاری چھوڑ کر نہیں جارہے۔اصل میں دیکھا جائے تو امریکہ کو سردجنگ کے بعد کسی ایسے مسائل سے نہیں گزرنا پڑا جو ملک کے لئے معاشی بدحالی کا پیش خیمہ تھا ہم تفصیل میں جائے بغیر سی آئی اے کے لئے کام کرنے والے اور روسی بلاکKGBکے انچارج کی انٹرویو کے دوران ایک بات دہرائیں گے جنہیں روس کو امریکی راز فراہم کرنے کے الزام میں عمر قید ہوئی تھی اس کا نام ایلڈرچ ایمس ہے۔ایک سوال کے جواب میں ایمپس نے کہا تھا”اب ہمیں روس(USSR)کے ٹوٹنے اور کمیونزم کے خاتمے کے بعد سی آئی اے کی ضرورت نہیں ہے کہ دنیا میں تمام ممالک ہماری طرف دوستی کے لئے بڑھیں گے۔”اسی دوران اس کی بیوی کو بھی30سال کی سزا ہوئی تھی جو اس کے ساتھ شریک تھی اس جرم میں یہ بات1993کی ہے اور ایمپس جیل میں ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہCIAکی پہلے سے زیادہ اہمیت ہے یا دوسرے معنوں میں پہلے سے زیادہ تعداد ہے۔ساتھ ہی دنیا کے غریب ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ،میکسیکو اور برازیل ساﺅتھ امریکہ میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک ہیں۔میکسیکو، سعودی عربیہ کے بعد یا برابر پیٹرول بیجنا ہے۔
اور برازیل کی سالانہ ایکسپورٹ209بلین ڈالر سے زیادہ ہے لیکن دونوں ملکوں میں غربت تیسرے ملکوں کی طرح ہے۔اس کے ساتھ ہی ساﺅتھ امریکہ میں دوسرے چھوٹے چھوٹے ملک جن میں وینزویلا، پیرو، چلی، بولیویاپیراگوئے، گوئٹے مالا، ہندورس، نکاراگوا، ایل سلوادر، کوسٹاریکا،کولمبیا، سب کے سب غربت کا شکار ہیں،یہ سب امریکہ کے پڑوس میں ہیںاور عرصے سے امریکہ وہاں کی سیاست میں انکے قریب بھی رہا ہے،انکی معاونت بھی کر چکا ہے۔معاشی حالات سدھارنے میں(ویسے تو امریکہ پچھلے70سال سے پاکستان کو ادھار دے کر وہاں کے حالات درست کر رہا ہے)لیکن کوئی تبدیلی نہیں آسکی ہے،ہم کہہ سکتے ہیں امریکہ میں بھی حقیقی تبدیلی آنا مشکل ہے کہ تانا بانا ایک ہی ہے۔
دو دن پہلے ٹی وی پر ساﺅتھ امریکہ کے ملک ہندورس سے وہاں کے جرائم غربت بے روزگاری اور تعلیم کے فقدان سے تنگ آکر عوام کے قافلے کو ٹیکساس کی جانب بڑھتے دیکھا تو1947ءکی مسلمانوں اور ہندوﺅں کی دونوں جانب ہجرت کی تصویر یاد آگئی جو اچھے مستقبل اور آزادی تقریر کے لئے ہجرت کر رہے تھے۔اس یقین پر کہ انکا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل تانباک ہوگا۔پہلے انہیں گوئٹے مالا سے گزرنا ہوگا۔پھر میکسیکو سے گزر کر ٹیکساس ایری زونا اور کیلی فورنیا کے بارڈر تک پہنچ ہوگی جہاں صدر ٹرمپ کی اونچی بارڈر وال کو پار کرنا ہوگا۔اس امید پر کہ اب جو نیا صدر ہے امریکہ وہ انہیں سیاسی پناہ میں لے لے گااور ایسا ممکن ہے کہ انہوں نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ10ملین غیر قانونی لوگوں کو شہریت دی جائیگی۔اس سے پہلے بھی یہ ہوچکا ہے غیر قانونی افراد کو قانونی حیثیت ملتی رہی ہے اور یہ ہوتا رہے گا کہ امریکہ ساﺅتھ امریکہ کے غریب باسیوں کے لئے امید کی آخری کرن ہے۔
اس ملک میں آنے کے بعد وہ کیا کرینگے بتاتے چلیں یہ سب محنتی لوگ ہیں محنتی اس لئے کہ سب کو مستقبل بنانا ہے۔اس کا ثبوت پہلے سے آباد میکسیکن ہیں۔جو ریستورانوں کی ملازمت کرتے ہیں۔فارمز میں کام کرتے ہیں امریکہ میں بڑی آبادی ہسپانوی زبان بولنے والوں کی ہے۔جو سب کے سب ان کے مددگار ہونگے۔اور سب سے بڑی وجہ گورے امریکن کے لئے ٹرمپ کا ساتھ دینے کی یہی ہے۔کہ وہ امریکہ کو تیسری دنیا کے لوگوں سے بچانا چاہتے ہیں۔یہ پرانی بات ہے جہاں کی بھی معیشت خراب ہوتی ہے۔وہاں ایک دوسرے نفرتیں پیدا ہوتی ہیںجہاں بھی باہر کے آئے ہوئے لوگ مقامی تقاضوں کے خلاف چلتے ہیں وہاں خلفشاری ہوتی ہے۔یہاں بھی کالے گورے کا فاصلہ پہلے کی طرح ہے۔ستر کی دہائی میں یہ منتظر لندن میں دیکھا گیا ہے۔جہاں انگریزوں کو پاکستانیوں سے شدید نفرت ہوگئی تھی اور نسلی فساد برپا ہوگئے تھے۔معیشت کے علاوہ بھی خلفشاری پیدا ہوتی ہے یا کرائی جاتی ہے جس میں بڑی قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے امریکہ کو جمہوریت پر فخر ہے۔لیکن یہ آمریت کو دوسرے ملکوں میں فروغ دیتا ہے۔(مصر،سعودی عرب وغیرہ)حالیہ خلفشاری کی مثال یمن ہے۔مذہبی خلفشاری کی مثال شمالی اور جنوبی یمن کا قیام ہوا تھا۔اور سعودی عربیہ سے مل کر امریکہ بہادر نے یہ کچھ کرایا تھا، عراق میں بھی ایسا ہی ہوا تھا اور اب پاکستان میں کوئٹہ بلوچستان میں ہزاروں کے دلوں میں نفرت کا بیج بویا جارہا ہے۔یہ مذہبی خلفشاری معاشی خلفشاری سے زیادہ خطرناک ہے مثال دیتے چلیں۔مراکش(MOROCCO)میں غربت ہے لیکن مذہبی دہشت گردی نہیں لہٰذا امن کی فاختہ نظر آئے گی۔
اس وقت امریکہ کو درپیش جو اندرونی مسائل ہیں وہ حکومت کے پیدا کردہ نہیں ہے لیکن سیاستدانوں کا ہاتھ ہے۔BLACK LIVES MATTERوالے جارج فلائڈ کے احتجاجی ہنگاموں میں کچھ شرپسند عناصر شامل تھے جو کالے امریکن کے ساتھ مل کر اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے اور کئی شہروں میں جہاں کے گورنر اور میئر ڈیموکریٹ تھے کی طرف سے انہیں توڑ پھوڑ، جلاﺅ پولیس گھیراﺅ کی کھلی اجازت تھی۔اٹارنی جنرل نے ان پر کوئی جرم عائد نہیں کیا اکثریت کالے اور بے روزگار لوگوں کی تھی۔ٹرمپ نے قانون کی بالادستی کا اعلان کیا یہ کام ڈیموکریٹ کا تھا خود بائیڈین نے کسی قسم کا سخت یہاں نہیں دیا لگتا تھا کہ ڈیموکریٹک ٹرمپ کے خلاف جمع ہو کر اسے ذلیل وخوار کرکے نکالنا چاہتے ہیں۔انہیں کامیابی ہوئی اور دونوں بڑی پارٹیوں میں ٹھن گئی ڈیموکریٹک کو ٹرمپ سے ڈر تھا کہ وہ کہیں دوبارہ2024میں صدر نہ بن جائے کہ ٹرمپ کے75کروڑ حمایتی ووٹرز کو ہنگاموں کی آزادی ملنے والے کالے امریکن کا سبق یاد تھا۔لہذا موقع پاتے ہی انہوں کیپٹل ہل کر ہلہ بول دیا توڑ پھوڑ مچائی اور آزادی تقریر کو غلط معنوں میں استعمال کیا یہ کیسے ممکن ہے۔پولیس یاFBIخفیہ اداروں کو4جنوری2020کے دن ہونے والی ہنگامہ آرائی کا علم نہ ہوجبکہ ڈی سی کی میئر ڈیموکریٹ ہے۔نینسی پلوسی جو ایک نہایت جذباتی عورت ہے ڈیموکریٹک پارٹی کی اور اسپیکر بھی ہے قانون ساز اسمبلی کی نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صدر ٹرمپ سے اپنی نفرت کے اظہار میں مواخذے کا کھیل کھیلا اب اگر صدر بائیڈن چاہتے ہیں کہ انکے اور ٹرمپ کے حامیوں میں امن رہے تو انہیں مواخذے کی کارروائی روکنا ہوگی۔20جنوری کے بعد!!!!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here