جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو
گزشتہ ہفتے امریکی صدر کے انتخاب کے بعد حلف برداری سے قبل کے حالات پر اظہار کرتے ہوئے ہم نے پاکستان کے حوالے سے سیاسی منظر نامے کو ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق ”تعبیر کرتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نئے محاذوں، فارن فنڈنگ و براڈ شیٹ کا مختصراً ذکر کیا تھا۔ گزشتہ پورا ہفتہ ہمارے سیاسی طالع آزماﺅں کے درمیان انہی دو معاملات پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر ہی گزرا اور میڈیا پر چسکے کا مظہر بنا رہا۔ اپوزیشن کی عمران خان کےخلاف فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے ریلی نے ایک بار پھر پی ڈی ایم کے ڈھول کا پول کھول کے رکھ دیا اور حکومتی دھڑے کو بغلیں بجانے کا موقع فراہم کر دیا۔ اپوزیشن کی وضاحتیں کہ یہ ریلی صرف پنڈی کے کارکنوں پر مشتمل تھی اور اس کا مقصد الیکشن کمیشن کو سات سال سے التواءمیں پڑے کیس پر خواب خرگوش سے جگانا تھا ،سیاسی تجزیہ کاروں و عوام کو قائل نہ کر سکیں۔ اپوزیشن کا اتحاد پی ڈی ایم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس تاثر کو ثابت نہیں کر پا رہا ہے کہ گیارہ جماعتوں کا یہ اتحاد موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے واضح ایجنڈے کی تحریک ہے۔ ہر جماعت اپنے مفاد کے تحت اپنے اپنے ایجنڈے کا ابلاغ کرنے پر کمر بستہ ہے، نتیجہ یہ کہ کوئی بھی اقدام نہ ہی مو¿ثر نظر آتا ہے نہ ہی کسی واضح لائحہ عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ احتجاج، جلسے، ریلیاں، اسمبلیوں سے استعفے، لانگ مارچ سے ہوتی ہوئی بات اب تحریک عدم اعتماد تک آگئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا یہ شوشا گزشتہ ہفتے شیخ رشید کی بلو رانی، بلاول زرداری نے چھوڑا۔ بلاول کے مو¿قف پر کہ ہم دس جلسے بھی کر لیں، لانگ مارچ کر لیں، سلیکٹڈ حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا، اس حکومت کو گرانے کا آئینی راستہ پارلیمان میں وزیراعظم کےخلاف عدم اعتماد کی تحریک ہی ہے۔ بلاول کی اس منطق پر ن لیگ کا رد عمل بڑا شدید آیا۔ فضل الرحمن بھی سیخ پا نظر آئے تاہم محمود اچکزئی و آفتاب شیرپاﺅ وغیرہ بلاول کی بات سے اتفاق کرتے نظر آئے پھر ہوا یوں کہ آصف زرداری کو بات نبھانے کیلئے بیان دینا پڑا کہ پی ڈی ایم متحد ہے اور عدم اعتماد، تحریک کے طے شدہ مختلف اقدامات میں سے ایک ہے۔ حکومتی حلقوں نے بلاول کے اس بیان کا خیر مقدم کیا کیونکہ انہیں علم ہے کہ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ اپوزیشن کو یہ خوش فہمی ہو سکتی ہے کہ عمران خان کی حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور وہ حکومت کی بے اعتنائی حرکات کے باعث اتحادیوں کو رام کر لے گی لیکن پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں کیا یہ ممکن ہے تاآنکہ مقتدرین کی نظر کرم ہو۔ ماضی قریب میں سینیٹ میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن کی شکست اس کی واضح مثال ہے۔ اس وقت تو اپوزیشن کی صورتحال بھان متی کے کنبے کی ہے جس میں آپس میں ہی اتفاق و اتحاد نظر نہیں آتا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بلاول کی یہ منطق خالی ازعلت ہے یا اس کے پیچھے کچھ محرکات ہیں۔ بلاول کا بعض پی ڈی ایم جلسوں، اجلاسوں میں عدم شرکت کا رویہ پیپلزپارٹی کا پی ڈی ایم کو ضمنی اور سینیٹ انتخابات میں شرکت پر آمادہ کرنا اور زرداری کے کیسز کی کراچی منتقلی کے ساتھ ارباب رحیم کا پیپلزپارٹی سے شکست کے بعد عمران خان سے شکوہ وغیرہ صورتحال میں نئی ڈویلپمنٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شُبہ نہیں کہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی، عام آدمی کی گزر بسر کی مشکلات، آٹا چینی، پیٹرول، آئی پی پیز کے اسکینڈل اور اب براڈ شیٹ بالخصوص فارن فنڈنگ کے حوالے سے اس حکومت کے اطوار پر سوال اُٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ عوام و نظام مملکت پر توجہ دینے کے برعکس وزیراعظم اور ان کے مشیروں و وزیروں، معاونین خصوصی کی ترجیحات مخالفین سے میڈیا پر جھگڑنے پر مرتکز ہیں۔ عوام کی بھلائی کیلئے اقدامات ان کیلئے ثانوی حیثیت بھی نہیں رکھتے حتیٰ کہ مشترکہ اجلاسوں میں بھی نزاعی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔ حوالے کے طور پر کراچی ٹرانسفارمیشن پلان اجلاس میں علی زیدی کا وزیراعلیٰ سندھ سے جھگڑا اور ٹوئٹس کے ذریعے اختلافی خلیج وسیع کرنا، براڈ شیٹ کے معاملے پر وزیراعظم کا جسٹس عظمت سعید شیخ کو تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ نامزد کرنا بھی جبکہ جسٹس شیخ براڈ شیٹ معاہدے کے وقت ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل رہے بعد ازاں پانامہ کیس میں بنچ کے رکن رہے، فطری طور پر مخالفین کا رد عمل کا باعث بنا اور جو بھی تحقیقاتی رپورٹ آئے گی اس پر منفی رد عمل آنے کا جواز ہوگا۔ واضح رہے کہ جسٹس عظمت شوکت خانم کے بورڈ آف گورنرز میں بھی ہیں۔ نیز جس وقت براڈ شیٹ کا معاہدہ ہوا، اس وقت جنرل ریٹائرڈ امجد نیب کے چیئرمین تھے بعد ازاں تنسیخ تک بھی مختلف جنرلز اس کے چیئرمین رہے تھے جبکہ پرویز مشرف کے دور میں ہی یہ معاہدہ ہوا اور اس کی تنسیخ بھی ہوئی۔ واضح رہے کہ اس دور کے متعدد کابینہ اراکین آج کپتان کی کابینہ اور تحریک انصاف میں ہیں۔ اس تمام صورتحال کی روشنی میں اگر کمیٹی کی رپورٹ میں مخالفین کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تو اس کا نتیجہ اپوزیشن کےساتھ مقتدرین سے حکومت کے ٹکراﺅ کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔
ہمارا درج بالا سطور کا لکھا جانا ہر گز کپتان یا موجودہ حکومت کو ہدف بنانا نہیں ہے، صرف یہ مقصد ہے کہ بلا سوچے سمجھے فیصلوں اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو موجودہ حکومت کیلئے حلق کی ہڈی بن جائیں۔ مخالفین تو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود شکست و عدم مقبولیت کے حصار میں ہی ہیں کہیں حکومت اپنی ہی غلطیوں اور نظام مملکت میں کمزوریوں کے باعث اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی نہ مار لے۔ ڈھائی سال سے زائد کا عرصہ تو گزر چکا ہے، بقایا مدت میں عوام کے مشکلات سے نکلنے، نظام کی بہتری کے اقدامات اور داخلی و خارجی معاملات پر بھرپور اقدامات و عمل لازم ہیں۔ بحث، مباحثہ اور تنقید کے طومار سے نکل کر کام وقت کا تقاضہ ہے۔ غیر منتخب مشیروں، اعزازی نائبین اور درجنوں ترجمانوں کے پروپیگنڈوں و جھگڑوں سے نکل کر عوام کی بہتر زندگی اور ملکی ترقی کیلئے عمل چاہیے ہے، وہی تحریک انصاف کی آئندہ کامیابی کی ضمانت ہے، کپتان کا یہ جملہ صورتحال کا واضح مظہر ہے، اب میں خود ہی فیصلے کروں گا۔
٭٭٭