پاکستانی سیاست کی دھند!!!

0
386
جاوید رانا

جاوید رانا، بیوروچیفشکاگو

آج کا کالم میرے لیے ایک ایسے تماشے سے جُڑا ہوا ہے جو ایک جانب پاکستان کی سالمیت، حب الوطنی اور عظیم جدوجہد کی تصویر کشی کر رہا ہے تو اس تماشے کا دوسرا رخ وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی، سیاسی و معاشی استحکام اور معاشرتی و اخلاقی تنزل کا نقشہ پیش کرتاہے۔ مارچ کا مہینہ تحریک و تخلیق پاکستان کے حوالے سے اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ 23 مارچ 1940ءکو مصّور پاکستان کے دو قومی نظریے کے خواب کی تعبیر قرار داد لاہور (پاکستان) کی صورت میں سامنے آئی اور بعد ازاں بانی¿ پاکستان کی قیادت میں مسلمانان برصغیر کی جدوجہد، لاکھوں قربانیوں اور کٹھن ترین حالات سے نبرد آزما ہونے کے ناطے پاکستان کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔ آج قرارداد پاکستان کے تاریخی اقدام کو 81 سال ہونے کو آئے، پاکستان کے قیام کو 74 سال ہو رہے ہیں، الحمد اللہ پاکستان دنیا کی پہلی اسلامی مملکت ہے جو اپنی پُرعزم و دنیا کی بہترین عسکری قوت و نیوکلیائی ناطے سے ممتاز ریاست کا درجہ رکھتی ہے اور اس کا اعتراف تمام عالمی قوتوں، مملکت اور اداروں نے کیا ہے لیکن دوسری جانب خود اپنے گھر میں ہی گھر کے مکین کیا گُل کھِلا رہے ہیں؟
مارچ کا مہینہ ہے ہمارے عسکری اداروں نے یوم پاکستان کے حوالے سے نہ صرف ہر سال کی طرح اس قومی دن کو شایان شان انداز سے منانے کی تیاریاں کی ہیں بلکہ تحریک قیام و ترقی¿ پاکستان کے حوالے سے ایک قومی نغمہ جذبہ¿ حب الوطنی اُجاگر کرنے کے ناطے سے ترتیب دیا ہے، حکومت وقت بھی اس تاریخی دن کو شاندار ملّی طریقہ سے منانے کی تیاریاں کر رہی ہے لیکن دوسری طرف ہماری سیاسی حکومت مخالف اور برسوں اقتدار کے مزے لوٹنے والی اور کرپشن کی کیچڑ و مفادات کی دھند میں لپٹی ہوئی اشرافیہ نے آغاز مارچ سے ہی حکومت، ریاستی اداروں اور قومی مفاد کےخلاف اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے مذموم کھیل کو مزید تیز کر دیا ہے۔
تین مارچ کو سینیٹ کی 48 نشستوں کے انتخابات میں تحریک انصاف 26 نشستوں کےساتھ چاروں صوبوں میں نمائندگی کےساتھ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تاہم اسلام آباد کی جنرل نشست پر حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں ووٹ کم پڑے جبکہ خواتین کی سیٹ پر تحریک انصاف کی امیدوار فاتح قرار پائی۔ حکومتی اتحاد کے 180 اراکین اور حزب اختلاف کے 159 اراکین کی اسمبلی میں گیلانی کو 169 ووٹ پڑنا عجیب مخمصہ تھا وزیراعظم نے بجائے شور شرابا کرنے کے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیاا ور 6 مارچ کو 178 ووٹ لے کر ایوان کا اعتماد حاصل کیا۔ اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اجلاس کو نیز اعتماد کے ووٹ کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا اور اپنی حکومت ہٹاﺅ مہم جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اپوزیشن کا یہ رویہ محض عمران دشمنی اور ملک میں رجائیت و انتشار کی کیفیت جاری رکھنا ہی ہے۔ اس کا انداز اس امر سے لگائیں کہ عین اس وقت جب وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لے رہے تھے اور کپتان کے کھلاڑی و چاہنے والے ڈی چوک میں جمع تھے، نواز لیگ کے رہنماﺅں نے اسی جگہ یعنی پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر ملحقہ پارک میں پریس ٹاک کا ڈرامہ رچایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف کے کھلاڑیوں سے محاذ آرائی میں احسن اقبال کے سر پر جوتا پڑا، مریم اورنگزیب کو ٹُھڈا پڑا۔ صورتحال اتنی بگڑی کہ شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کھلاڑیوں سے بھڑ گئے اور ٹھیک ٹھاک پٹائی ہو گئی۔ سیاسی چپقلش، محاذ آرائی حد یہ کہ مخالفوں کو دشنام دینا اور لڑنا جھگڑنا تو ہر ملک و معاشرے میں ہوتا ہے لیکن خواتین پر حملہ آور ہونا، تکذیب کرنا کسی بھی اخلاقی، مذہبی و تہذیب میں قابل قبول نہیں لہٰذا اس عمل کی مذمت بلا تخصیص ہونی چاہیے۔
مارچ میں ہی اب سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب ، ڈسکہ میں ری پولنگ اور 26 مارچ کو پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کی تیاریاں اور اس حوالے سے حکومتی اور مخالف دھڑوں کے مابین محاذ آرائی کی کیفیت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے دن نت نئی ڈویلپمنٹ سامنے آرہی ہیں۔ سینیٹ میں حکومت کے 47 ووٹس کے مقابلے میں 53 ووٹس ہیں۔ حکومتی حلقوں نے گیلانی کی جیت کو ووٹ خریدنے اور ہارس ٹریڈنگ قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کر دی ہے، دوسری جانب اپوزیشن اپنی سبقت برقرار رکھنے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہی ہے، حکومتی حلیفوں سے رابطے اور اپوزیشن کی حمایت کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔ لانگ مارچ کے حوالے سے بھی حکومت اس کوشش میں ہے کہ لانگ مارچ کسی صورت کامیاب نہ ہو پائے جبکہ اپوزیشن اس ایشو پر باہمی اتفاق پر نظر نہیں آرہی ہے۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم کا اجلاس دس گھنٹے جاری رہ کر یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ کی نامزدگی کے علاوہ کسی نکتہ پر متفق نہ ہو سکا۔ انس نورانی اور قمر زمان کائرہ کے درمیان جھگڑا، پنجاب کے معاملہ پر فضل الرحمن کی لا تعلقی اور میاں نوازشریف کی گیلانی کی نامزدگی کی تجویز اور اسلام آباد کی بجائے پنڈی پر دباﺅ کی ہدایت اس امر کی وضاحت ہے کہ زرداری کی حکمت عملی سے اختلاف کر کے دوبارہ اسٹیبلشمنٹ مخالف حکمت عملی اپنائی جائے۔
مریم نواز کا سینیٹ انتخابات کے دوسرے دن وزیراعظم سے آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ کی ملاقات کو بنیاد بنا کر براہ راست اور بالواسطہ منفی پروپیگنڈہ اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ باپ بیٹی پھر اپنی پرانی ڈگر پر اُتر آئے ہیں۔ میڈیا کے جغادری مسلسل اس پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے عمران خان خصوصاً پنجاب کے حوالے سے تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مائنس ون اور پنجاب میں بزدار کی تبدیلی کے بارے نئی نئی توجیہات بیان کی جا رہی ہیں۔ انتظامی و عوام کی مشکلات کے سبب بہت سی تبدیلیوں اور کپتان کیلئے آئندہ دشواریوں کی پیشگوئیاں کی جا رہی ہیں۔ سیاسی حالات کو اس حد تک خراب کر دیا گیاہے کہ روز ایک نئی اور بُری صورتحال عوام کو ہلکان کرتی ہے۔ ہلکان تو عوام بلکہ ساری قوم مہنگائی، بیروزگاری اور غیر یقینی سے اس حد تک ہو چکے ہیں کہ اپنے ووٹوں کی طاقت سے مسلسل حکمرانی اور لُوٹ مار کرنے والی سیاسی اشرافیہ سے جان چُھڑا کر، تبدیلی کی خواہش میں عمران خان کو اقتدار میں لا کر اب اس حکومت سے بھی مایوس اور بیزار نظر آتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں عمران خان سے بہتر کوئی رہنما نظر نہیں آتا، ماضی میں حکمرانی کرنے اور اپنے مفادات و لُوٹ مار کے شیدائیوں کے مقابلے میں عوام کی اولین ترجیح بھی عمران خان اور تحریک انصاف ہی ہیں۔ حالیہ سینیٹ انتخابات کے بعد عمران خان کا دلیرانہ اقدام اور سوشل میڈیا و دیگر ذرائع پر عوام کی بھرپور ستائش اس کا بڑا ثبوت ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر وزیراعظم کو اپنے لائحہ عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جرائم کی بیخ کنی، مخالفوں کو انجام تک پہنچانے کے اقدامات غلط نہیں لیکن صرف اسی ایجنڈے پر عمل کرنے سے عوام اور نظام کی بہتری نہیں ہو سکتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امور مملکت، نظام اور عوام کی بہتری کیلئے اقدامات و اصلاحات پر توجہ دی جائے تاکہ عوام ویلڈن کپتان کا نعرہ لگائیں اور آئندہ انتخابات میں بھی پی ٹی آئی ہی کامیاب ہو۔ سیاست اس رخ پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں سوائے دھند اور دھاندلی کے کوئی منظر سامنے نہیں، قوم کو کپتان سے ہی امید ہے کہ اس دھند سے انہیں نجات دلا سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here