کولمبو:
مسلمان خواتین پر برقع اور حجاب سے چہرہ ڈھانپنے کی پابندی سے متعلق سری لنکا نے وضاحت کردی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سری لنکن حکومت کاکہنا ہے کہ برقعے اور حجاب پر پابندی ’محض تجویز‘ تھی جس کی تاحال منظوری نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ تین روز قبل سری لنکا کے وزیر برائے عوامی تحفظ سارتھ ویراسکیرا نے برقع پہننے کو شدت پسندی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملک بھر میں نقاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کی دستاویز پر دستخط کردیے گئے ہیں اور اسے کابینہ سے منظور کرایا جائے گا۔
تاہم منگل کو ہونے والی پریس کانفرنس میں حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام مشاورت کے بغیر نہیں ہوسکتا جس کے لیے طویل وقت درکار ہوگا۔ اس کے علاوہ سری لنکا کی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے یہی موقف اختیار کیا۔
سری لنکا میں تعینات پاکستان کے سفیر سعد خٹک اور انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی احمد شہید نے حجاب پر پابندی کے بیان کو مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا تھا۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق سری لنکا نے اسلامی حجاب پرپابندی کے فیصلے سے اس لیے پسپائی اختیار کی ہے کہ آئندہ ہفتے جینیوا میں سری لنکا کے انسانی حقوق سے متعلق ریکارڈ کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں قرار داد پیش ہونے والی ہے۔ اس اجلاس میں ووٹ دینے والے 47 ممالک میں پاکستان، بنگلادیش سمیت مسلم اکثریت رکھنے والے ممالک کی تعداد دوتہائی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر انسانی حقوق سے متعلق سری لنکا کے خلاف قرارداد منظور ہوجاتی ہے تو اس کی حکومت اور عسکری حکام کو 2009 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے کیے گئے اقدامات پرکارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی لیے سری لنکا اس حوالے سے انتہائی محتاط ہے۔
قبل ازیں کورونا وائرس کی وبا کے دوران گزشتہ برس سری لنکا میں مسلمانوں پر میتیں دفنانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور جبراً میتوں کو جلانے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ اس پالیسی کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی اور گزشتہ ماہ سری لنکا کو یہ پابندی ختم کرنا پڑی۔
واضح رہے کہ سری لنکا کی دو کروڑ بیس لاکھ سے زائد آبادی میں نو فیصد مسلمان ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق وہاں آباد تمل قوم سے ہے۔