پیر مکرم الحق،انڈیانا
mukarampeer@gmail.com
پچھلے دنوں پاکستان میں مختلف مقامات پر عورت مارچ منعقد کئے گئے۔یہ تقریبات8مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے کی گئیں۔قدامت پرست حلقوں میں جیسے کوئی بھونچال آگیا کہ یہ کھلی فحاشی ہے اور ہماری تہذیب ومعاشرے میں اس بے حیائی کی کوئی گنجائش نہیں۔سعودی عرب سے زیادہ کوئی اسلامی ملک(اہلسنت کے لئے)کوئی نہیں وہاں خواتین کو گاڑی چلانے اور تنہا سفر کرنے پر ابتک پابندی تھی جو اب اٹھا لی گئی ہے۔ایران میں بھی خواتین کی تکریم کی جاتی ہے انہیں مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کی آزادی ہے۔اسلام میں خواتین کے حقوق موجود ہیںلیکن برصغیر میں عورت کو پیر کی جوتی سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی اس خطے کو یہ اعزاز حاصل ہے اس خطہ اور آس پاس کے ممالک میں یعنی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا اور برما میں خواتین سربراہ مملکت کا چناﺅ ہوتا رہا ہے۔عرب ممالک میں اس کی تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔محترمہ بےنظیر بھٹو کو اسلامی دنیا کی سربراہ مملکت ہونے کا اعزاز حاصل ہے جبکہ امریکا جیسے جدید اور جمہوری ملک میں اسکی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ2021کے انتخابات میں کمالہ ہیرس کو ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر نائب صدر منتخب کیاگیا ہے۔ہمارے ممالک جن میں تعلیم کا فقدان ہے جسکی وجہ سے ہم ابھی تک دقیانوسی رسم ورواج جنہیں ہمارے معاشرے کے مردوں نے اپنی برتری کو یقینی بنانے کے لئے تشکیل دیا ہے۔خواتین کو اپنی ملکیت بنائے رکھا گیا ہے اور خواتین کی معاشی آزادی کو اپنے خلاف سازش کا نام دیکر اپنے بنائے ہوئے رسم ورواج عزت وناموس کی فرضی زنجیروں میں جکڑ کر رکھنے کے بعد انکی آزادی کی خواہش کو قابل نفرت اور حقارت جرم سمجھنے والے مردوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہمارے نبی پاک نے ایک بزنس وومن(خاتون جنت)بی بی خدیجہ سے شادی کی تھی جن کی سربراہی میں وہ انکے کاروبار کا حصہ بنے اور یہ کیفیت شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی جاری رہی انکا فرمان بھی یہی تھا کہ خواتین کو عزت دو اس دور میں قبل اسلام اس خطے میں بچی کو پیدا ہوتے ہی زمین میں زندہ دفن کیا ، ایسے دور میں حضور پا نے نہ صرف خواتین کے حقوق کی بات کی بلکہ اپنی بیٹی بی بی فاطمہ کے کمرہ میں داخل ہونے پر کھڑے ہوکر اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ بیٹیوں کا احترام لازم ہے۔سبحان اللہ اس ماحول میں چودہ سو سال پہلے جو حقوق بنائے گئے وہ آج چارٹر آف ہیومن رائٹس(انسانی حقوق کے چارٹر)کا حصہ ہیںہم اگر مسلمان کہلاتے ہیں تو ہمیں ان روایات کو مان کر چلنا ہوگاجو ہمارے آقا نے ہمیں دی ہیں۔اس طرح تعلیم حاصل کرنے کی بات جو ہمارے رسول عربی محمدﷺ نے کی تھی۔اس میں عورت اور مرد کی کوئی تفریق نہیں تھی لیکن کتنی غلط اور ظلم کی بات ہے کہ اُم رباب چانڈیو کے والد کو بمعہ انکے دادا اور بھائی کے اس لئے قتل کروا دیا، قبائلی سرداروں نے کیونکہ لڑکیوں کو تعلیم نہیں دینی چاہئے اس حکم کو ٹھکرانہ ام رباب کے بزرگوں اور بھائی کے ظالمانہ قتل کی وجہ بن گیا ہے۔وحشیانہ اقدام قبائلی رسم ورواج کے کھوکھلے پن کی تصدیق کرتا ہے۔
پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی کے احاطے میں ایک لڑکا لڑکی نے ایک دوسرے کو اپنا ہمسفر تجویز کیا اور تسلیم کیا خاص بات یہ تھی کہ لڑکے نے بھی پھول دیئے لیکن لڑکی نے ایک گھٹنے پر جھک کر پھول دئے اور لڑکے نے فرط جذبات سے لڑکی کو گلے سے لگا لیا۔انداز بالکل معصومانہ تھالیکن بنانے والوں نے ایک عظیم گناہ کی صورت بنا کر اور ایک قومی مسئلہ بنا دیا۔
ہماری منافقت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بند کمروں میں کیا ہوتا ہے عورت کی سڑکوں پر عزت لوٹی جاتی ہے۔تو ہماری مردانگی نہیں جاگتی مجرموں کو پکڑنے کیلئے آواز نہیں اٹھائی جاتی اگر یونیورسٹی کے دو طالبعلموں نے ایک دوسرے کو قبول کرکے ہمسفر بنا ڈالا تو ہمیں انکے گلے ملنے جب کہ انکے دوست آس پاس کھڑے تھے۔تو آسمان گر گیا اور ہماری غیرتیں جاگ جاتی ہیں۔محبت ایک فطری جذبہ ہے اگر انجانے طور پر وہ آپس میں مل گئے تو انہوں نے یہ عمل ایک دوسرے کو ہمسفر بنا کر کیا۔کچھ لوگوں کو برا لگا ہوگا لیکن کچھ لوگوں کو برا نہیں لگا۔ہر کسی کو اپنے انداز سے جینے کا حق ہونا چاہئے۔مرد جو سڑکوں پر حرکتیں کرتے نہیں وہ بھی بہت بری لگتی ہیں۔