پی ٹی آئی اور پاکستانی امریکنز

0
84
کوثر جاوید
کوثر جاوید

 

کوثر جاوید
بیورو چیف واشنگٹن

امریکہ میں ہر چار سال کے بعد صدارتی انتخابات ہوتے ہیں،ہر دو سال کے بعد435اراکین کانگریس کے الیکشن ہوتے ہیں۔امریکی سینٹ کی سو نشستوں پر ہر دو سال کے بعد33فیصد نشستوں پر ووٹنگ ہوتی ہے۔اس سارے پراسیس میں پارٹیوں کے اندر پرائمری انتخابات کا طریقہ کار بھی رائج ہے۔کوئی بھی امریکی ایک صاف اور ٹرانسپیرنٹ مرحلے میں گزر کر کسی بھی نشست پر الیکشن کےلئے اہل ہوتا ہے۔امریکہ میں بلکہ پوری دنیا میں ایک ایک ووٹ کی بڑی اہمیت اور قدر ہوتی ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کانگریس یا سینٹ کی نشست کےلئے تعلیم کی حد مقرر کی گئی ہے تاکہ اسمبلی میں قانون سازی کےلئے بہترین تعلیم یافتہ اور پروفیشنل لوگوں کا انتخاب کیا جائے۔ ملکی قوانین بنانے کےلئے قانون ساز اسمبلی کے ممبران بنائیں۔سوچ بوجھ سے فیصلے کریں۔ پاکستان میں بھی ایک وقت میں قومی اسمبلی کےلئے الیکشن کے لیے گریجویشن کو لازمی قرار دینے کا قانون بنایا گیا جو بعدازاں ختم کر دیا گیا۔انتخابات اور پارٹی کے اندر ہو یا پارٹی کے باہر ووٹ کے ذریعے عمل میں آنےوالے عہدے نہایت پائیدار اور دیرپا سمجھے جاتے ہیں۔ووٹ کو ضمیر کی آواز بھی کہا جاتا ہے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور یہ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔پاکستان کے وزیراعظم ہمیشہ اوورسیز پاکستانیوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔اس کوشش میں ہیں کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اوورسیز پاکستانیوں کی نشستیں ہونی چاہیں۔گزشتہ دس سال سے امریکہ میں پاکستان تحریک انصاف پارٹی کی سرگرمیوں کا آغاز ہوا ہے،پہلے مرحلے میں تو وہ پاکستانی امریکن شامل تھے جو عمران خان کے حقیقی ساتھی شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی جیسے پراجیکٹس میں ساتھ چل رہے تھے ،دوسرے مرحلے میں وہ لوگ شامل ہوگئے جو ہر پاکستانی سیاسی پارٹی کا حصہ ہوتے ہیں”جو جیتے اس کے ساتھ“ نتیجہ یہ ہواکہ پارٹی میں کئی گروپ بن گئے۔ عمران خان کے سنجیدہ ساتھی اور پرانے لوگ ان اختلافات اور گروپس کی وجہ سے پارٹی سے دور ہوگئے۔پی ٹی آئی امریکہ میں چار سال قبل بھی پرائمری انتخابات کا شوشہ چھوڑا گیا لیکن مکمل نہ ہو سکے مگر ہر گروپ نے اپنا اپنا صدر اور سیکرٹری بنا لیا۔تحریک انصاف کے جتنے وزراءاور عہدیدار امریکہ کے دورے پر آتے ہیں اتنے ہی گروپس تشکیل پا گئے۔ آج کل دوبارہ پی ٹی آئی امریکہ میں انتخابات کا شور سنا جارہا ہے اور ممبر سازی کی جارہی ہے ، ہر گروپ کے لوگ متحرک ہیں۔ممبرسازی کی کوشش کر رہے ہیں۔پی ٹی آئی ممبر بننے کےلئے درخواست کے ساتھ سالانہ فیس بھی دینا پڑتی ہے۔یہ سب عمل ایک جمہوری عمل ہے ،ہونا بھی چاہئے لیکن جب بھی کوئی امیدوار یا سیاستدان الیکشن میں حصہ لیتا ہے تو اس کے ماضی کے کارناموں اور کاموں کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ عمران خان کی صورت میں پاکستان کو ایک دلیر ،دیانتدار ،تعلیم یافتہ لیڈر ملا ہے اور اس کا تبدیلی کا نعرہ ہے، امریکہ میں آباد جو لوگ پی ٹی آئی کی اس ممبر سازی کا حصہ بنیں وہ سوچ سمجھ کر ممبر بنیں اور ضمیر کی آواز کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیں۔پی ٹی آئی امریکہ کے جو لوگ بھی عہدوں کےلئے ووٹ اور ممبر سازی کر رہے ان کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی کو ضرور سامنے رکھیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ان لوگوں کا کیا کردار رہا ہے ۔ پاکستان امریکہ تعلقات میں کیا حصہ ڈالا ،یہاں پاکستانیوں کے مسائل کو کیسے حل کروایا اور پاکستانیوں کو پی ٹی آئی کے چیپٹرز کا کیا فائدہ ہوا، یعنی ممبر بننے والے لوگوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ عہدوں کی بندر بانٹ اور ذاتی نموونمائش اور مفادات کےلئے لڑنے والے یہ لوگ کمیونٹی انتشار کا باعث بنے یا نہیں ،آئندہ منتخب ہو کر یہ لوگ کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟ہر صور تحال پر غور رکھیں اور کیا امریکی شہری ہوتے ہوئے ہم پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کے ممبر بن سکتے ہیں۔کمیونٹی کے تمام ممبران خواتین وحضرات سے گزارش ہے کہ ممبرسازی کے وقت اچھے اور مخلص لوگوں کو ووٹ دیں یا ممبر بنیں تاکہ امریکہ میں پاکستانیوں کی ایک مضبوط آواز عمران خان کو پہنچے جس سے عمران خان جیسے عظیم رہنما کا تبدیلی کا خواب پورا ہو اور پاکستان ترقی کر لئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here