آنکھوں دیکھا
عامر بیگ
ایسٹ انڈیا کمپنی 16ویں صدی کے اوائل میں ہندوستان آئی، تجارت کی آڑ میں سونا اگلتے ہندوستان پر تاج برطانیہ کے راج کا خواب دیکھا گیا قصہ مختصر وہاں فاتح اور مفتوح دونوں شہنشاہ تھے معاشی طور پر سلطنت عثمانیہ کی بد حالی کا سبب اس کی ترقی پذیر معیشت میں نہیں تھا بلکہ وہ ثقافتی خلا تھا جو اسے یورپی قوتوں سے الگ کیے دیتا تھا ،اقتصادی مسائل دراصل بیرونی سامراجیت اور اُبھرتی ہوئی داخلی قوم پرستی جیسے مسائل سے نہ نمٹ پانے کی وجہ سے تھے انہی کوتاہیوں کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے، خزانے پر تو کیا ملک پر بھی انکی گرفت کمزور پڑ گئی، رہی سہی کسر جنگوں نے پوری کر دی ،بچی کچھی حکومت سو سالہ معاہدے کے تحت اتاترک کے سپرد ہوئی تب کے حالات کو آج کے جدید اور نئے پاکستان سے مماثلت دینا زیادتی ہوگی، میڈیا میں بڑے بڑے اینکرز اور تجزیہ نگار سٹیٹ بینک کی مجوزہ ترتیب بارے عوام کو گمراہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں وہ زیادہ تر وہی ہیں جو موجودہ حکومت سے نالاں ہیں یا اپوزیشن کے کھونٹے سے بندھے ہیں پرانی فیل شدہ حکومتوں کی فیل شدہ پالیسیوں کے تجربہ کار معیشت دانوں کو ٹی وی پر بٹھا کر ان سے نئے پاکستان کی نئی معاشی پالیسی اور گورنر سٹیٹ بینک بارے حکومتی موقف پر ہونے والی صورت حال کے تانے بانے ایسٹ انڈیا کمپنی کی کامیابی اور سلطنت عثمانیہ کی تباہی سے ملا رہے ہیں کہ سٹیٹ بینک کے نئے قانون کے پاس ہونے کی صورت میں سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے گھر کی لونڈی بن جائے گا ،سٹیٹ بینک میں پڑے ڈالرز لیے گئے قرضوں کی واپسی کی زر ضمانت ہے،لہٰذا سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے، وجہ موجودہ گورنر اسی بینک کا سابقہ ملازم ہے یہ ایجنڈہ بھی اسی کا دیا گیا ہوگا ،تہتر سالوں میں پاکستان آئی ایم ایف کے پاس بائیس دفعہ جا چکا آئی ایم ایف نے کبھی پاکستان کو خود آفر نہیں کی کہ ہم سے قرضہ لے لو ہمیں ہی ضرورت پڑی ہماری غلط معاشی پالیسیوں ہی کی بدولت ہمیں اسکی طرف رجوع کرنا پڑا یاد رکھیں جب قرضہ لیں گے تو قرضہ کی واپسی کے لیے ان کی شرائط بھی ماننا پڑیں گی سٹیٹ بینک کو انیس سو چھپن کے ایک ایکٹ کے تحت چلایا جارہا ہے جس کا کرتا دھرتا وزیر خزانہ ہے سابقہ حکومت مارکیٹ سے ڈالرز خرید کر مصنوعی طور پر اسکی قیمت اور مہنگائی کنٹرول کرتی رہی غیر ملکی قرضوں کے انبار لگاتی گئی سٹیٹ بینک سے نئے نوٹ چھپوا کر اس سے بھی ریکارڈ قرضے لیے گئے اور ان قرضہ جات کی واپسی کے لیے مزید قرضے خان حکومت آنے پر پاکستان کا دیوالیہ نکلنے کے قریب تھا جسے عمران کی انتھک محنت اور کوششوں نے سنبھالا دیا ،اب مجوزہ قانون کے تحت سٹیٹ بینک کسی نکمے اور بھگوڑے اسحاق ڈار کے زیر تسلط رہنے کی بجائے پارلیمنٹ اور کابینہ کے ماتحت آ جائے گا جہاں فیصلے اجتماعی وزڈم سے ہونگے پالیسیوں کے تسلسل کے لیے گورنر کی مدت بھی تین سال سے بڑھا کر پانچ سال تک کرنے کی تجویز ہے ،گورنر کی تعیناتی کا اختیار کابینہ کے پاس ہوگا وزیر اعظم کی سمری پر صدر کے دستخط ہونگے جیسے کہ دوسرے خودمختار اداروں میں ہوتا چلا آیا ہے ،بلنڈر کرنے پر عدالت اتارنے کی مجاز ہو گی، پروفیشنل معاشی خود مختاری دے دی جائیگی تاکہ حکومت قرضہ پر نہیں اپنے ریسورسزپر چلے جس کا مظاہرہ پچھلے پانچ ماہ سے دیکھنے میں آیا ہے، ایک اور بات اگر ادارے تباہ کرنے ہوتے تو اختیارات اپنے پاس رکھے جاتے ہیں ،خود مختاری نہیں دی جاتی۔
٭٭٭