سردار محمد نصراللہ
قارئین وطن! ایک نان پروفیشنل کالم نگار کی حیثیت سے میرے لئے بعض دفعہ مشکل ہوتا ہے کہ اپنے خیالات اور سوچ سے سب کو خوش رکھا جائے، میرے پڑھنے والوں میں تین قسم کے قاری ہیں ایک جرنل قاری جو اپنی سیاسی وابستگی سے بالا ہو کر انفارمیشن کے طور پر پڑھتا ہے دوسرا میرے وہ احباب جو میرے قریبی دوستوں کا حلقہ ہے اور میری سیاسی وابستگیوں کو جانتے ہوئے ہر حال میں پڑھتے ہیں اور اپنی رائے سے مسلط فرماتے ہیں تنقید کرتے ہیں اور رہنمائی فرماتے ہیں اور تیسرا وہ حلقہ ہے جو سیاسی وابستگی رکھتا ہے اور اس کی روشنی میں میری سوچ اور فکر کو اپنے ترازو میں تولتا ہے لہٰذا میں اپنے تینوں قارئین کا دل کی گہرائی سے احترام کرتا ہوں اور ان کے تجزیوں اور تنقید کو اپنی رہنمائی سمجھتا ہوں لیکن میری کوشش ہوتی ہے اپنی سیاسی فیلنگز کو کالم لکھتے وقت اثر انداز نہ ہونے دوں ، میرے احباب جانتے ہیں کہ میرا سیاسی تعلق مسلم لیگ سے ہے اور سیاسی بیک گراو¿نڈ ہونے کی وجہ سے اپنے والد اور دیگر احباب کا تاریخ کے حوالے سے ذکر ممکن ہوتا ہے جس کو ا±ستخوان فروشی کے ذمرے میں نہ لیا جائے کہ میں ا±س کا قائل نہیں ہوں اور جہاں تک ممکن ہو میں اپنے بزرگوں کا نام استعمال کرنے سے گریز کرتا ہوں۔
قارئین وطن! جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز پاکستان کی پولیٹیکل وادی مصیبتوں سے بھری پڑی ہے اور ا±س پر بھارت میں سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کا بھارت کے ایک مایہ ناز جرنلسٹ اور انڈیپنڈنٹ تجزیہ نگار “کرن تھاپڑ” کو انٹرویو دیا اپنی تصنیف ہاسٹیلیٹی (Hostility) کے حوالے سے جو ہندوستان میں “رالی پبلشرز“ اگلے ماہ منظرِ عام پر لائے گی جس کا شدت سے سیاسی حلقوں میں انتظار ہے اور مجھ کو بھی باسط صاحب کے اس انٹرویو نے کتاب کی چھپائی سے پہلے پاکستان کے سیاسی سرکل میں ہل چل مچا دی ہے کرن صاحب نے بھی ا±ن کی کتاب کے حوالے سے بڑے چبتے سوال کر کے باسط صاحب کو انٹرنیشنل رلیشنز کے کارپردازوں میں جہاں نمایاںکیا ہے وہاں ا±ن کے ہوش بھی اڑا دیئے ہیں، ریاست کے سلامتی کے ادارے باسط کے انکشافات پر آنکھ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ جب وہ ہائی کمشنر تھا اورنواز شریف ،مودی کی خوشنودی اور بھارت کے انٹریسٹ کی فکر میں زیادہ گہرائی میں اترا ہوا تھا تو ہم کیا کر رہے تھے ،عبدلباسط صاحب نے اپنے پیارے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حب لوطنی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، بقول کرن کے کہ باسط صاحب کی کتاب ایک بم ہے جس کا دھماکہ نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں سنا جائے گا بلکہ پوری دنیا میں سنا جائے گا یہ ایک جملہ ا±ن لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے جو نواز شریف کو “پاکستان میڈ “ کہتے تھے “ Nawaz SharifPandered to IndiaUnilaterally and Unconditionally “یارانِ سیاست آکسفورڈ ڈکشنری میں pandered کا مطلب دیکھ لیں میں تو کانپ گیا کہ یہ ہے نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کا صدر “ل ن م ق “جس کی صدارت میں امریکہ میں پاکستان مسلم لیگ کا صدر تھا حالانکہ ا±س دور کے قصے تو بہت ہیں لیکن آج باسط صاحب کے انٹرویو پر ہی رہتے ہیں تاکہ قوم کو بتا سکیں کے پاکستان میڈ نے کس طرح کشمیر کے ایشو پر خاموشی اختیار کی اور اس نے پاکستان کے مفادات کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی بقول باسط کے کہ نواز شریف نے ا±س کی ہائی کمشنر کے ڈومین کی توہین کی اور اس کی ایک مثال کے جب نواز شریف نے بھارت آنا تھا اس کو اس کی اطلاع جندال کے ذریعے معلوم ہوئی بلکہ ا±س کے دورے کا سارا پروگرام دیا جس میں جندال کی رہائش پر جانا بھی شامل تھا باسط صاحب کا کہنا ہے کہ نواز نے ایک دفعہ بھی مشہور زمانہ جاسوس کلبھوشن کا ذکر کبھی اپنے منہ سے نہیں لیا بلکہ ا±س کا نام نہیں لیا بلکہ وہ ہندوستان اور وہاں کی عوام کے لئے خاص جذبات رکھتا تھا اور اس نے اس کا اظہار کئی بار کیا کہ آپ بھی ایک خدا کو مانتے ہیں اور ہم بھی ،ہمارا ایک ہی کلچر ہے آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی، ہمارے اور آپ کے درمیان صرف ایک لکیر ہی کھنچی ہوئی ہے “جاتی عمرہ آپ کی طرف ہے اور ہماری طرف بھی – بقول باسط صاحب نواز شریف نے ڈپلومیٹک نامز کی دھجیاں اڑا دی ہے اس نے ہر قدم پر ہائی کمشنر کے رتبہ اور دفتر کی توہین پر توہین کی ہے۔
قارئین وطن! اب جب میں کہتا ہوں کہ نواز شریف کے سارے تانے بانے ہندوستان کے ساتھ ملتے ہیں اور وہ کوئیزلنگ پاکستانی ہے اور ا±س کے خوشہ چیں مجھ غریب پر چڑھ دوڑتے ہیں کون ہے جو نہیں جانتا کہ نواز شریف نے افواجِ پاکستان کو بھارتی فوج کے مقابلے میں کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ،اب باسط صاحب کے انٹرویو کے بعد میں پاکستانی سلامتی کے اداروں سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کیا ہم ایک اور فوج میں جرنل یحییٰ اور مجیب الرحمان پیدا کر نے کی کوشش کر رہے ہیں، حسینہ واجد تو ہم مریم صفدر کی شکل میں کر چکے ہیں، میں سمجھتا ہوں باسط صاحب کے دھماکہ خیز انٹرویو کے بعد عمران خان کی بھی ذمہ داری بنتی ہے نوٹس لینے کی ، میں اپنے قارئین پر واضع کرنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ تحریر کیا وہ کرن تھاپر اور باسط صاحب کے انٹرویو پر مبنی ہے کتاب کا شدت سے مجھے بھی انتظار ہے ، اللہ کرے کہ عبدالباسط صاحب کی طرح ہمارے سرکاری افسر پاکستان کے مفاد کو اپنے مفاد پر جگہ دیں کہ پاکستان ہے تو جو کچھ ہمیں ملا ہے اور ملے گا پاکستان کی وجہ سے ہے ، پاکستان زندہ باد، نوٹ ! اپنے احباب کے ساتھ کالم شئیر کریں شکریہ
٭٭٭