کراچی کی نورین گیلانی نے سوشل میڈیا پر ڈالاکیا، کراچی اب بھی اتنا پیارا ہے جتنا برسوںپہلے ہوتا تھا،برسوں پہلے کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ادبی شاعری اور فنون،لطیفہ کی دنیا میں نام بنانے والے ایک ایک کرکے کراچی سے چلے گئے کچھ کو قدرت نے سمیٹ لیا اور کچھ کراچی میں طرح طرح کی جنم لینے والی سازشوں کا شکار ہوگئے۔رئیس امروہوی، حکیم محمد سعید دہلوی اور امجد صابری ایک اور جنہیں ہندوستان نے وقت سے پہلے دنیا چھوڑنے پر مجبور کردیا نام تھانصرت فتح علی خاں ادھر ڈراموں(ٹی وی)کی دنیا کے مشہور لکھاری بھی اپنی باری آنے پر دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔حالیہ افسوس ناک خبر آئی۔حسینہ معین بھی چلی گئیں وہ عرصہ سے سرطان جیسے موذی مرض میں مبتلا تھیں اور اپنی قوت ارادی سے اس کا مقابلہ کر رہی تھیں کچھ سال پہلے ہم اس ہی کیفیت میں ان سے ملے تھے۔اس وقت ہمیں معلوم نہ تھا ایک ادبی میلہ میں رضوان صدیقی صاحب نے ہمیں کئی شخصیات سے ملوایا۔ان میں احمد شاہ بھی تھے وہ بھاگم بھاگ جارہے تھے اور پریشان چہرہ لئے گھوم رہے تھے خوش مزاجی نام کی کوئی شے نظر نہیں آئی ایسی شخصیت جو مقصود انور کے مزاح کو نہ سمجھ سکیں کیا کام کراچی آرٹس کونسل سے وہ شاید پیپلزپارٹی کے چہیتے تھے جو کسی مقام کو پاکر آمرانہ حرکتیں کرنے لگتے ہیںاور ادب وشاعری اور فنون لطیفہ کے کینوس پر بقول خرو شیف تجریدی آرٹس کے رنگ پھینک دیتے ہیں۔بات حسینہ معین کی ہو رہی تھی انہیں دیکھ کر بھی ایسا ہی لگا۔جب نیویارک آتی تھیں،ان کے لئے محفلیں سجائی جاتی تھیں،حسینہ معین کا نام ٹی وی ڈراموں میں ایک لیجنڈکے طور پرلیاجاتا ہے۔ان کی شہرت کے ڈنکے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان تک پہنچے تھے۔یہ90 کی دہائی کی بات ہے کہ راج کپور خواجہ احمد عباس کے اسکرپٹ پر فلم ”حنا‘بنا رہے تھے۔پریشان تھے اور کسی دوست کے کہنے پر حسینہ معین سے رابطہ کیا کہ وہ فلم حنا کے مکالمے لکھیں تو انکی فلم مکمل ہوسکتی ہے۔وہ راضی ہوگئیں اور زیبا بختیار جو فلم کی ہیروئن تھیں کو ذہن میں رکھ کر خوبصورت مکالمے لکھے، فلمبندی سے پہلے ہی راج کپور کا انتقال ہوگیااور پھر انکے بڑے بیٹے رندھیراکپور نے فلم کی ہدایت کاری کی۔فلم مقبول ہوئی، باکس آفس پر ہٹ ہوئی اور اکیڈمی ایوارڈ میں بیرونی فلم کی کیٹگری میں شامل کرنے پر بھیج دیالیکن فلم نامزد نہ ہوسکی۔ حسینہ معین نے فلم کی ریلیز سے پہلے آر کے پروڈکشن کو لکھا کہ انکا نام کریڈٹ میں نہ آئے کہ اس وقت بابری مسجد کے تعلق سے ہنگامے شروع ہوگئے تھے۔جس میں سینکڑوں مسلمان کی جانیں چلی گئی تھیں۔انکا یہ جزبہ قابل تحسین تھا کہ وہ مسلمانوں کے زخموں پرنمک نہیں چھڑکنا چاہتی تھیں۔یہ1970کی بات ہے انہوں نے اپنے فن کا آغاز ڈرامہ”کرن کہانی“ لکھ کر کیا اورراتوں رات شہرت کی بلندیوں پر جاپہنچیں۔وہیں سے شروعات ہوئی پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی ہندوستان میں مقبولیت کی۔اس کے بعد انہوں ایک کے بعد ایک خوبصورت سیریل لکھے پل دو پل،دھندلے راستے، پڑوسی انکل عرفی،ان کہی، تنہائیاں، دھوپ کنارے، کسک،مہم جو، زیر زیر پیش ہیں۔ڈرامہ سیریل کسک کے بعد حسینہ معین کی دلچسپیاں کم ہوتی نظرآتی ہیں۔اور شاید اسکی وجہ نجی چینل کی بھرمار اور اس پر اوٹ پٹانگ ڈراموں کا داخلہ ہے جو حسینہ معین کے معیار سے گرا ہوا ہے اور جاری ہے۔
حسینہ معین کے ڈراموں کا کینوس مالدار اور نواب خاندان کے افراد سے بنتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ وہ قرة العین حیدر اور ممتاز شیریں کی کہانیوں سے بہت زیادہ متاثر تھیں ،ہر چند کہ حسینہ معین کا تعلق کسی نامی گرامی نواب خاندان سے نہیں تھا۔وہ بذات خود سادہ لوح تھیں لیکن حسینہ معین کے کئی ڈراموں میں عینی ،آیا ممتاز شیریں اور عصمت چغتائی کی کہانیوں کے کردار ملےں گے۔اوپر دی گئی لسٹ میں زیادہ تر ڈرامے ایسے ہی کرداروں کی غمازی کرتے ہیں۔مرکزی کردار زیادہ تر باپ کی چھوڑی ہوئی دولت کے طفیل بنگلے ،کوٹھی اور کار کا مالک نظر آتا ہے اورگھروں میں نوابانہ شان وشووکت کا پرچار ہے جبکہ حسینہ معین کا کہنا تھا لکھاری کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہانی کو ڈھالناچاہئے اور کرداروں کو لکھنا چاہئے ذرا مختلف بات لگتی ہے ممکن ہے انکے مشاہدے میں یہ سب کچھ رہا ہو، ممکن ہے وہ سنہری جیمز کے ناولTHE PORTRAIT OF A LADY(عورت کی تصویر)سے مستعار لیا ہو جس کی ڈرامائی تشکیل”پرچھائیاں“ کے نام سے کی تھی اور بے حد خوبصورت ماحول پیدا کیا گیا تھاجو انکے ڈراموں سے ملتا جلتا تھا اور کہانی کا تانا بانا بھی مشرقی انداز کا تھا ،راحت کاظمی ساحرہ کاظمی،طلعت حسین نے کرداروں میں جان ڈال دی تھی کہ پر چھائیاں ایک یادگار ڈرامہ سیریل بنا تھا۔
حسینہ معین کے ڈراموں میں سنجیدگی کے ساتھ مزاح بھی ملتا ہے انکل عرفی زیر زیر پیش شہ زوری اسکی مثال ہیں۔جب کہ مزاح پیدا کرنا یا لکھنا سنجیدہ تحریر سے کہیں مشکل کام ہے اور حسینہ معین کو اس پر کمال تھا۔عظیم بیگ چغتائی جوشبنم رومانی کے نام سے بھی مشہور تھے اور عصمت چغتائی کے بڑے تھے۔مشہور کہانی نویس،ڈرامہ نگار اور مذہبی لکھاری تھے انکی ایک کہانی پر مشہور سیریل ڈرامہ شہہ زوری لکھا گیا تھا اور مرکزی کردار نیلوفر عباسی(علیم) نے ادا کیا تھا کہ وہ اب تک شہہ زوری کے تعلق سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔ ایک ڈائیلاگ جو سب کو یاد ہے”میں بہت برا آدمی ہوں“ڈرامہ کی پہچان بنا تھا۔حسینہ معین کے قلم کا کمال تھا۔
حسینہ معین نے بھی عظیم بیگ چغتائی کی روش کو اپنایا تھا کہ عورت معاشرے کا مضبوط ستون ہے اس کو ہر جگہ خودمختار اور مضبوط کے علاوہ خود سر بھی دکھایا ہے کہ ہیرو کومحبت میں ہیروئن کے پیچھے دکھایا گیا ہے۔آج کے ڈرامہ سیریل میں بھی عورت کو بلکہ عورتوں کو خود سر بتایا گیا ہے جن کی اولادیں بھی اتنی بداخلاق میشن زدہ ہیں۔حسینہ معین کے کرداروں میں جو اخلاقی حدیں ہیں انہیں پامال کیاگیا ہے اور بدماغی کی انتہا کو پہنچایا ہے۔افسوس ہوتا ہے آج کے دور میں اگر حسینہ معین کا بدل ہوسکتا ہے وہ عمیرہ احمد ہیں ”درشہوار“ اسکی مثال ہے لیکن حسینہ معین کے کرداروں کے برعکس متوسط ہیں اگر حسینہ معین نے دیکھنے والوں کو سنجیدہ بٹھایا ہے تو عمیرہ احمد نے جگہ جگہ رلایا ہے یہ بھی درست ہے کہ حسینہ معین کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے جو بہت پہلے ہوگیا تھا بھر نہیں سکتا البتہ تاریخ ہے۔
٭٭٭