پاکستان کی آبادی22کروڑ ہو رہی ہے اور اسکے چار بڑے شہروں میں اندرون شہر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتیں یا تو ہیں نہیں یا بالکل ناکافی ہیں۔سوائے لاہور کے جہاں کی آبادی اور لوگوں کی ضرورت سے بہت زیادہ ہے یا اعلیٰ ہے ،لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے کچھ زیادہ ہے جب کہ کراچی کی آبادی2018کے کے سروے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ ہے اور آج کی تاریخ میں دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ مراکش (MOROCCO) کے بادشاہ محمد ششم جب1999میں بادشاہ بنے تو انہوں نے اعلان کیا بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت دی جائے گی اور2011میں مراکش کے جدید دارالخلافہ رباط میں جدید ترین زمین سے لگی ہوئی خوبصورت ٹراموے نظام کا افتتاح کیا گیا۔اور آج دوسرے شہروں کا سابلانکا طنجہ(TAGIER)میں بھی ٹرام چل رہی ہے۔ان شہروں کی آبادی کراچی، پشاور، ملتان، حیدرآباد کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے ،خود مراکش(MOROCCO)کی آبادی چار کروڑ سے کم ہے۔اس کے پڑوسی ملک الجیریا کی آبادی بھی ساڑھے چار کروڑ کے لگ بھگ ہے۔اور وہاں بھی2011میں ایلجیر(ALGIERS)میں ٹرام شروع کر دی گئی تھی۔اب آپ افریقہ کے دوسرے ملک ایتھوپیا جس کی آبادی گیارہ کروڑ سے زیادہ ہے۔کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ادیس ابابا میں بھی جہاں صرف ڈیڑھ لاکھ لوگ آمدورفت رکھتے ہیں ٹرام کا آغاز ہوا ہے۔وہاں کے وزیر ریلوے نے کہا تھا ملک اور شہروں کی ترقی کے لئے تیز نقل وحمل ضروری ہے۔اور ضروری ہے کہ تیز رفتار ذریعہ بنایا جائے۔ ہم نے صرف تین ملکوں کی مثال دی ہے جہاں کی آبادی پاکستان سے بے حد کم ہے جو مسلمان ملک ہیں لیکن ٹرانسپورٹ کو ترقی کا زینہ جانتے ہوئے تیزی سے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترقی دے رہے ہیں۔ترکی مسلمانوں کا سب سے ترقی یافتہ ملک ہے ہم اسکی مثال نہیں دینگے اب ہم آتے ہیں پاکستان کے چار بڑے شہروں کی طرف یہ کوئی1952کی بات ہے جب ہم حیدرآباد میں آکر بستے انگریزوں کا بنایا یہ ایک خوبصورت شہر تھاجو کلچر کے اعتبار سے بھی مشہور تھا اور تاریخی اعتبار سے بھی سندہ کا مشہور شہر تھا۔میاں محمد بن قاسم ہو کرگیا تھا۔پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام تھا اندرون حیدرآباد اور اندرون سندھ حکومت کی طرف سے سندھ ٹرانسپورٹ کے نام سے تھا۔ دوسرا سب سے بڑا شہر اور پاکستان کا دارالخلافہ کراچی تھاجہاں ہم نے ٹرام میں سفر کیا تھا لگتا تھا ہم کسی مغربی شہر میں آگئے۔محمدی ہاﺅس (نومنزلہ) سب سے اونچی عمارت تھی جیسے دیکھنے لوگ دوسرے شہروں سے آتے تھے۔بند روڈ پر ایمپریس مارکیٹ سے ٹرام چلتی تھی اور وہ آخر تک ریلوے اسٹیشن سے ملا دیتی تھی۔لیکن یہ نظام1985میں بند کر دیا گیااور تاجر لوگ اسکی پٹریاں اکھاڑ کر لے گئے۔اس کے علاوہ بستوں کا جال تھا ان میں ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلتی تھیں۔شہر کی ترقی رک گئی جب ایوب خان مرکز اٹھا کر اسلام آباد لے گئے۔شاید اس نے فیروز شاہ تفلق کو پڑھا ہوگا۔جو دارالحکومت دہلی سے اٹھا کر فیروز آباد لے گیا تھا۔ایوب خان کا کہنا تھا تاریخ سرد ممالک کے لوگ بناتے ہیں یہ بات قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر نے بھی سنی ہوگی لیکن آپ چاہلوسوں سے امید نہیں کرسکتے کہ وہ بادشاہ وقت کو اچھی بات بتائیں اور یہ چلن اب انتہائی عروج پر ہے۔
کیا لوگ تھے کہ تیمور لنگ کے دربار میں ایک اندھا میراثی گانا سنا چکا تو تیمور لنگ نے خوش ہو کر پوچھا کیا نام ہے تیرا میراثی نے دونوں ہاتھ جوڑ کرکہا۔جہاں پناہ بندے کو دولت سنگھ کہتے ہیں۔تیمور لنگ ہنسا اور بولا”حیرت ہے آج معلوم ہوا دولت بھی اندھی ہوتی ہے۔اور میراثی نے برجستہ کہا”اندھی نہ ہوتی تو لنگڑے کے پاس کیوں آتی ”مثال اس لئے دینی پڑی کہ لندن سے آیا لونڈا جس کا باپ اسکا نام بدلتا ہے۔بڑی عمر کے لوگوں کا رہنما ہے جو سب کے سب دولت کے نشے میں اندھے بنے بیٹھے ہیں۔سندھ کے ان دو بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔کراچی میں تقریباً ہر روٹ پر تیز رفتار بسوں کا نظام ختم ہوچکا ہے۔اور جھالروالی بسیں جس بے ترتیبی سے کراچی میں بھاگ رہی ہیں وہ ناکافی سے بھی کم ہیں۔دوسری طرف لاہور ہے جس کے لئے سعادت حسن منٹو نے کہا تھا ”لاہور ایک بڑا گاﺅں ہے“اور جب ہم وہاں گئے ساٹھ کی دہائی میں تو وہ ہمیں گاﺅں ہی لگا جہاں سڑکوں پر بھاگتے تانگے گھوڑوں کی لید کے تعفن سے بھری سڑکیں انکے ساتھ سائیکلیں اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں دیکھیں۔اور نواز شریف نے کراچی کو بھلا کر لاہور کو پیرس بنانے کی سوچی وہ اور ایوب خان بھول گئے تھے کہ مہاجروں کے انخلاءکے بعد شہر، پنجابی، پٹھان اور آرمی کے ریٹائرڈ لوگوں کا ہوگا۔کراچی کی تباہی میں مہاجروں کی جماعت نے بھی ہر حکومت سے ساز باز کرکے کراچی کے انفراسٹرکچر کو تباہ کیا۔ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے کھربوں ڈالرز کا قرضہ لیتے رہے اور اپنی دولت نوازی کو سوچ کو نہ بدل سکے۔
جب ہم دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں جن کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم ہے اور ان شہروں کی آباد لاکھوں سے بھی کم اور وہاں چلتی زمین دوز ٹرینیں اور ٹرامیں دیکھتے ہیں تو کراچی کو یاد کرکے رونا آتا ہے۔جہاں سواری کے لئے بسیں بھی نہیں ادھر شمالی امریکہ کے کئی پسماندہ ملکوں میں میٹرو چلتی ملے گی یورپ اور امریکہ کی مثال دینا مناسب نہیں اور روس کے شہری ٹرانسپورٹ کے نظام کو بھی نہیں چھو سکتے چین دنیا میں تیزرفتار ٹرینوں کے نظام میں سب سے اوپر ہے۔میکسیکو، پرتگال، سوئیزرلینڈ،آئر لینڈ، آسٹریا، اٹلی، اسپین ناروے ڈنمارک سویڈن، فرانس، ترکی برازیل، ارجنٹائن، وینزویلا، اور انڈیا ہاں ہم بھول گئے پسماندہ مصر کو جس کے شہر قائرہ میں میٹرو چلتی ہے۔حکومتیں آتی ہیں جاتی ہیں انقلاب بپا ہوتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں شہروں کا ٹرانسپورٹ نظام مضبوط سے مضبوط اور بڑھتا ہی جاتا ہے۔سوائے پاکستان کے اس کی وجہ؟صرف اور صرف دو پارٹیاں ہیں۔نون لیگ اور سندھ میں پیپلزپارٹی اگر یہ پارٹی ملکی خزانے باہر کے ملکوں میں نہ لے جاتی تو کراچی میں بھی میٹرو ہوتی اگر سندھ میں ادیس ابابا کے وزیر ٹرانسپورٹ کی سوچ رکھنے والا ہوتا۔
٭٭٭