سمندر تھا….سلیم ملک!!!

0
282
کامل احمر

کامل احمر

ملک سلیم احمد یا سلیم ملک چلا گیا۔اسے گئے ایک سال ہوگیا پچھلے ہفتہ اسکی برسی تھی،نیویارک میں یہ اہتمام مجیب لودھی صاحب نے کیا جو اپنے پیاروں کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔میں شکاگو میں تھا میری ان سے بات ہوئی اور انکو شکایت تھی کہ سلیم ملک کے قریبی دوست نہیں آئے ایک ایسے انسان کو خراج تحسین دینے جو دوسروں کے لیے جیا یہ میرا کہنا ہے یہ کالم میں مجیب لودھی صاحب کے کہنے پر ہی لکھ رہا ہوںجس کے لئے میں تیار نہ تھا کہ اس ہفتے کا کالم لکھ چکا تھا اور دوسرا کالم لکھنا بڑا مشکل تھا کیسی ایسی شخصیت پر جو میرے نزدیکLARGER THAN 4FEیعنی ایک نہیں کئی زندگیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئی تھی میری اور اسکی دوستی پرانی نہیں تھی چند ہی سال میں میں سلیم ملک کی عظمت کا قائل ہوگیا تھا۔میری زندگی میں باپ کے علاوہ کتنے انسان ہیں جو دوسروں کے لئے جیتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ رومی نے کہا تھا!
اگر تم ایسے دوست کی تلاش میں ہو جو دودھ کا
نہایا ہو تو جان لو تمہارا کوئی دوست نہیں
شاہد نہیں مجھے یقین ہے یہ ہی سوچ تھی اس کی اور وہ ہر کسی کو اپنا دوست سمجھتا تھا عمر میں25سال چھوٹا ہونے کے ناطے اس نے مجھے اپنی اچھی بری غصہ دلانے والی حرکات سے متاثر کیا تھا کہ ہر سچا انسان حساس، جزباتی اور غصیلا بھی ہوتا ہے اور میں اسکے غصہ کو بھی پیار کی نظر سے دیکھتا تھا یاد ہے مجھے اسکے کسی پروگرام میں جو ٹیسٹ آف لاہور میں تھا مجھے اور یونس شرر کو آنے میں دیر ہوگئی وہ مجھ پر ناراض تھا شدت سے لیکن شرر پر نہیں میں نے تحمل سے کام لیا۔حالانکہ نہ تو مجھے اس پروگرام میں بولنا تھا اور نہ ہی مہمان خصوصی بننا تھا پھر وہ مجھے کیوں اتنی اہمیت دے رہا تھا۔اس لئے کہ شاید میں واحد آدمی ہوں جو صرف اسکے پروگرام میں ہی جاتا ہوں۔دوسرے دن اس نے مجھے فون کیا وہ نادم تھا میں نے یہ کہہ کر سلیم میری جان میں ناراض نہیں تم مجھے اپنا دوست سمجھتے ہو تو ناراض ہونے کا حق ہے تمہیں اور اس کا کہنا تھا میرا پروگرام تھا یونس شرر صدارت کرینگے۔اور آپ مہمان خصوصی ہونگے میں نے کئی محفلوں میں لوگوں کو اس پر ناراض ہوتے ہوئے بھی دیکھا تھا اور سنا تھا لیکن وہ سمندر تھا جس پر لوگ پتھر بھی پھینکتے ہیں، لہروں کے لئے وہ کسی موقع کی تلاش میں کبھی نہیں تھا البتہ ہر لمحے اسے جستجو رہتی تھی کچھ نہ کچھ کرنے کی وہ بڑی مشکلات سے کھیلتا آرہا تھا اپنی انا کو اپنے دل میں چھپائے اس پر آئن اسٹائیں کا یہ قول بھی پورا نہیں اترتا تھا۔
”کسی مشکل کے دوران ہی مواقع پیدا ہوتے ہیں“
افسوس کہ اس دنیا میں کوئی جوہری ایسا نہ تھا جو اسکی پہچان کرسکے اس ہیرے کو ایک خوبصورت انگوٹھی میں جڑ سکے۔نیویارک کونسلیٹ اور ہائی کمیشن میں سب ہی اسے جانتے تھے لیکن شاید اس کی قابلیت ذہانت اور اسکے ارادوں سے ڈرتے تھے کہ حکومت ک معلوم نہ ہوجائے شاید یہی وجہ تھی کہ کسی نے اس کا نام تجویز نہیں کیا ستارہ امتیاز یا کسی اور شارے کے لئے یہ کام ہم سمجھتے ہیں ان لوگوں کا ہے اور ایسا نہ کرنے پر انہیں شرم آنی چاہئے۔سلیم ملک نے کراچی یونیورسٹی سے معیشت میں اعلیٰ ڈگری لی تھی اس نے اپنے سوئزرلینڈ کے دوران اقوام متحدہ کے آفس میں اعزازی ڈگری لی تھی انٹرنیشنل اسٹڈیز میں وہ سفارت کار بھی بن سکتا تھا اقوام متحدہ نیویارک میں ایک اچھی ملازمت لے سکتا تھا مجھے نہیں معلوم کسی بااختیار آدمی نے اس کو پیش کش کی ہو میرے خیال میں نہیں شاید انہیں خطرہ تھا کہ ان کی اہمیت کم نہ ہوجائے ممکن ہے وہ کسی کا پابند نہیں ہونا تھا شاید اسے معلوم تھا کہ یہ ادارہ کلب ہے جہاں لوگ خود کو ہی تفریح پہنچاتے ہیں(ہمارا تجربہ ہے اقوام متحدہ میں کام کے بعد)چاپلوسی کرتے ہیں اور یہ ملازمتیں زیادہ تر اقربا پرستی یا اہل تشیع کی بنیاد پر بھی ملتی ہیں اس نے خود کو آزاد کرکے دوسروں کی محفلوں اور اجلاس کو کامیاب کرنے کا شوق پال رکھا تھا اور مندرجہ ذیل حقیقت لکھنے کے بعد کسی کو شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہ بیک وقت، ادبی ثقافتی، سیاسی کاروباری، رفاعی،فلاحی، مذہبی تنظیموں کے علاوہ سفارت کاروں، صحافی برداری(وہ خود ایک بے باک صحافی تھا جو مصلحت پسندی سے دور ہوتا ہے“۔
مجھے ایسی شخصیات کا سامنا کم ہی ہوا ہے جو ہر میدان میں مہارت کا سکہ جما دیں۔دلیپ کمار اور عمران خان کے لئے لوگوں کا کہنا ہے ان میں اللہ نے صلاحیت دی ہے کہ وہ کسی بھی میدان میں ہوتے تو اول ہوتے۔سلیم ملک کے لئے کہنا پڑتا ہے وہ سوائے اداکاری کے کسی بھی ایک شعبہ میں ماہر ہوتا، لیکن وہ ہر شعبے کا ماہر تھا اس کے بغیر پر محفل پر اجلاس اور ہر بیٹھک پھیکی تھی اور رہے گی وہ اپنے سے بڑوں کی بے حد عزت کرتا تھا مجھے اسکے بارے میں کچھ معلومات لینا تھیں جو مجھے نہیں معلوم ہوں تو فیس بک پر جانا پڑا کہ اسکی پوسٹ سے کچھ مواد مل جائے اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ اس نے میری ہر پوسٹ کو اپنی گیلری میں سجا رکھا تھا کاش میں اس سے پوچھ سکتا ایسی کیا بات نظر آئی جو تم نےSaveکرلیں اس نےPTIکے لئے بغیر کسی ایوارڈ کے لئے منیر چودھری اور پرویز ریاض کے ساتھ بڑی محنت کی تھی میں اسے جدوجہد کہونگا۔جو اس نے عمران خان کے لئے تھی اسے معلوم تھا کہ سیاست میں کبھی بھی صحیح آدمی کو اس کاحق نہیں ملتا اس کی شناخت نہیں ہوتی اگر آپ پیسہ نہ پھینک سکیں۔افسوس کہ سلیم احمد ایک محنت کش خود دار انسان تھا جو اسکے علاوہ اپنے بیوی اور بچوں کی کفالت برداشت کر رہا تھا اور اسکی قربانی ملازمت پر ہوتے ہوئے ان تنظیموں کو وقت دینا تھی ایک بار میں نے کہا کہ تم اپنے بچوں اور گھر کو سنبھالو اور اپنا مالی نقصان نہ کرو لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔حتیٰ کہ وہ دل کے عارضے میں ہسپتال جانا بھی پسند نہیں کرتا تھا کہ ہسپتال والے اسے مہمان نہ بنالیں تو ان تنظیموں انجمنوں اور کسی کی ضرورتوں کو کون پورا کرےگا۔ایک نہایت ہی مخلص انسان تھا خلوص اور بغیر ذاتی مطلب کے میدان میں آخری سوار تھا یہاں مجھے سردار عبدالرب نشتر کی زبان سے سنا یہ شعر یاد آرہا ہے جو میرے محترم دوست محسن بھوپالی مرحوم سے منسوب ہے۔
نیرنگئی سیاست دوران تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
مجھے سلیم ملک کی کشمیر میں ہندوستانی فوج کے ظلم وستم کے خلاف جدوجہد یاد رہے گی کہ بے تکان بچوں اور گھر کی فکر سے آزاد ہوکر25ہزارکا ہجوم اقوام متحدہ کے سامنے جمع کیا جس میں سکھ برداری کی شرکت اسکی کاوشوں اور ان سے برادرانہ تعلقات کی مرہون منت تھا جس کا کوئی مول نہیں تھا اس کے لئے جو فنڈ جمع کیا گیا اس سے اس کی دلچسپی صرف اتنی تھی کہ وہ خرد برد نہ ہو اور آخری وقت میں اس کمیٹی پر نکتہ چینی کے دوران جو فنڈ سے متعلق ذمہ داران سے سوالات کے لئے رکھی گئی تھی۔سلیم ملک نے اسے دل پر لے لیا اور مجھے یہ بات دوبارہ لکھنے کی ضرورت پڑ رہی ہے کہ وہ پاکستان اور اس سے منسلک کشمیر میں مودی کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا یہ بات کونسلیٹ کو بھی معلوم تھی اور ہے ہم یاد دہانی کراتے چلیں کہ سلیم ملک کو اس طرح بھلا دینا ہم سب کی فطرت کی گواہی دیتا ہے کہ ہم پاکستانی چڑھتے سورج کی پوجا کرتے ہیں ہم اپنی اپنی ذاتی ترجیحات کے غلام ہیں،محتاج ہیں اپنی خود غرضی کے لئے ایک ایسے شخص کو زندہ نہیں رکھ سکتے اسے نام نہیں دے سکتے جو تاریخ بنا گیا ہماری نظر میں جو کسی کا محتاج نہیں تھا اسکو دیکھ کر لگتا تھا انسان زندہ ہے اس کا ضمیر زندہ ہے جو کہہ رہا ہے اور مسکرا رہا ہے۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاﺅنگا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاﺅنگا
نیویارک کے اردگرد سمندر ہے وہاں جاکر اسکا شور سنو قریب آتی لہروں کو دیکھو یہ سلیم ملک ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here