قارئین! عرض سلام کے بعد یہ سطور میں دنیا کے اس مقدس شہر سے لکھ رہا ہوں جس کی مٹی سونے اور جواہرات سے مہنگی ہے۔عراق کے شہر کربلا میں تاریخ انسانیت کا سب سے بڑا ظلم ہوااور انسانی حقوق کی سب سے بڑی پامالی یہاں ہوئی۔نواسہ رسول ، جگر گوشہ علی و بتول ابوالاحرار ، سید الشہداء، راقم دوش رسول، محافظ اسلام و قرآن حضرت امام حسینؑ نے اپنے اہل بیت اور اصحاب و انصار کی قربانی سے دین ابراہیمیؑ اور شریعت مصطفیٰ کو تا قیام قیامت بقائے دائمی بخشی۔ ان سطور کی تکمیل تک ورود کربلا میں مجھے 72 گھنٹے ہو جائیں گے۔یعنی 2021 اور 1442 کا یہ مقدس ترین اور یادگار سفر ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے 72 گھنٹوں میں 72 شہداءکی خدمت میں حاضری لگی ہے جن میں وارد کربلا ہوا تھا تو پندرہ شعبان کی مخصوصی گزر چکی تھی۔جس میں بقول برادرم مولانا سید علی نقی زیدی کربلائی دو کروڑ عاشقان حسین ؑ نے لبیک یا حسینؑ اور لبیک یا مہدیؑ کہتے ہوئے کربلا میں حاضری دی۔مخصوصی کے 72 گھنٹے کے بعد تک خوشبوئے زائرین محسوس ہو رہی تھی۔سترہ سے 20 شعبان جو جم غفیر میں نے امام حسینؑ اور حضرت عباسؓ کے روضوں پر دیکھا وہ کسی قیمت حج سے کم نہ تھابلکہ ایسے لگتا تھا 3 برابر حج کے کربلا والوں کے مخلص اپنے آقاﺅں کی خدمت میں حاضر تھے۔ان چند ایام میں ہر نماز حرم میں پڑھی جاتی ہے۔تہجد کی نماز بھی حرم میں ادا کرتا ہوں۔پہلے روز جب میں حرم امام حسین جانے لگا تو تین مرتبہ حرم حضرت عباس ع سامنے آجاتا تھا جس طرح امام حسین باب الجنت ہیں اسی طرح حضرت عباس باب الحسینؑ ہیں۔ گویا میں امام حسین کے دروازے یعنی ضریح حضرت عباس پر حاضری دی اور بعد میں سید الشہداءکی خدمت میں پہنچا۔ حضرت عباس کی زیارت کے بعد تکلیف دہ بات یہ محسوس ہوئی کہ آپ کے دونوں بازو دوران جنگ کٹ گئے تھے۔بازو و¿ں کے کٹنے والی جگہوں کو کف العباس کے طور پر محفوظ کیا گیا ہے جن کے درمیان کافی فاصلہ ہے۔دونوں بازﺅں کے قلم ہونے کے بعد جہاں حضرت عباس ؓ شہید ہوئے وہ بھی کافی فاصلہ ہے۔دنیا میں فقط حضرت عباس ؓ کو شہنشاہ وفا کہا جاتا ہے۔جو بغیر بازﺅں کے بھی امام حسینؑ کے بچوں کے لئے پانی پہنچانے کی تگ و دو کرتے رہے۔حضرت عباس کے روضے پر بڑی رونق دیکھنے میں آئی اور ضریح مقدس پر ہاتھ رکھ کر تصویریں بنوانے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔شیعہ و سنی معروف یہی ہے حرم حضرت عباسؓ اور علم حضرت عباسؓ پر ایسے فرشتے موکل کئے ہیں کہ اگر علم یا حرم پکڑ کر اللہ سے دعا کرے تو وہ فرشتے اللہ کی طرف سے مجاز ہیں ۔فورا ً تمناﺅں کو پورا کرتے ہیں۔اس لئے کہ سرکار غازی کی اپنی کوئی تمنا پوری نہیں ہوئی۔سرکار غازی کی کچی قبر علقمہ کے پانی گھری ہوئی ہے۔اس پانی کو آب شفا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔یہ پانی بھی مولانا علی نقی زیدی کے توسل سے مل گیا۔سرکار نواب کربلاکی خدمت میں حاضری دینے گیا تو سب پہلے گنج شہیداں اجتماعی قبر میں دفن شہدائے کربلا پر سلام کیا۔(جاری ہے)
پانچ شہدا کہ علاوہ باقی تمام شہداء یہیں دفن ہیں۔سامنے امام حسین کے بچپن کے دوست حضرت حبیب ابن مظاہر رض کا روضہ ہے۔وہ عاشورہ کی نماز میں امام حسینؑ کے محافظ تھے۔آج بھی لگتا ہے روضہ امام حسینؑ کے باڈی گارڈ ہیں۔ چھ کونوں والی امام حسینؑ کی ضریح پر دل مٹھی میں آ گیا۔ بے تحاشا آنکھیں برس پڑیں۔وہ روایت یاد آ گئی کہ امام زین العابدینؑ نے اپنے بابا کے جسد مطہر کے جسم کی بکھری ہوئی ہڈیوں پسلیوں کو اکٹھا کرکے کیسے دفن کیا ہوگا۔امام حسینؑ کی پائنٹی پر کافی دیر کھڑا رہا اس لئے کہ ہم شکل پیغمبر حضرت علی اکبر اپنے بابا کی پائنٹی میں دفن ہیں جنہیں حصین بن نمبر نے ظلم بھرے نیزے سے وار کرکے شہید کر دیا تھا جبکہ امام کے چھوٹے فرزند کم سن ترین شہید حضرت علی اصغر اپنے باپ کے سینے پر دفن ہیں ، شش ماہِ حضرت علی اصغر کو حرمل ابن کاہل اسدی سہہ شنبہ تیر گلے میں مار کر شہید کیا۔امام حسینؑ کے روضہ پر مورخین کا بیان کردہ وہ منظر یاد آتا رہا کہ کس طرح شمر بوسہ گاہ رسالت پر ضربیں مارتا رہا اور بہنیں ، بیٹیاں اور اہل خانہ خیموں سے دیکھتی رہیں۔امام موسی ٰ کاظم کے پوتے حضرت ابراہیم مجاب ابن سید عابد ع کی زیارت کی۔ان کو مجاب اس لئے کہتے ہیں کہ انہوں نے امام حسینؑ کو سلام کیا تو امام نے انہیں جواب دیا تھا۔ اس کے بعد امام حسینؑ کا مقتل دیکھا۔جہاں آپ 13 ضربوں سے شہید کئے گئے۔ جسے رواق± مقدس کہا جاتا ہے۔سامنے وہ طلہ زینبیہ دیکھا۔ یہ وہ ٹیلہ ہے جہاں سیدہ زینب ع کھڑی ہو کر دیکھتی رہیں اور ان کا بھائی دیکھتا رہا۔ اس ٹیلے پر کھڑے ہو کر بی بی نے اپنےنانا کو آواز دی تھی۔پھر خیام حسینی کی زیارت کی۔یہ سادات بنی ہاشم کے خیام تھے جن کو عصر عاشورہ آگ لگا دی گئی تھی۔ اور اس سے پہلے ان خیام حسینی کو لوٹا گیا تھا۔یہاں پہنچ کر وہ منظر سامنے آ گیا کہ کس طرح علی و بتول کی بہو ، بیٹیوں،نواسیوں، پوتیوں کے سروں سے چادریں چھینی ہوں گی۔یہاں پہنچ کر دل ڈوب جاتا ہے۔یتیمہ حسینؑ کو لگنے والے تازیانے اور طمانچے یاد ز آجاتے ہیں اور تاراجی خیام کا سوچ کر بے ساختہ آنسووں کی برسات جاری ہو جاتی ہے۔اس کے بعد مقام علی اصغر یعنی مقتل رضیع میں حاضری دی۔یہ وہ جگہ ہے جہاں سرکار سید الشہداءاپنے شش ماہ پسر و پانی پلانے کو لائے تھے اور ظالموں نے سہ شعبہ تیر مار کر شہید کر دیا۔ اس بین کے بعد امام کے بال سفید ہو گئے تھے کہ کیا چھ ماہ کے بچے بھی قربان کئے جاتے ہیں۔
اور یہ بین بھی آج بھی کربلا میں گونج رہا ہے کہ جس تیر مارا کیا وہ صاحب اولاد نہ تھا۔ اس کے بعد مقام علی اکبر دیکھا۔یہاں برچھی کھانے کے بعد یوسف کربلا زین سے زمین پر آئے تھے۔اور ان کی لاش پر پہنچتے پہنچتے امام حسین 80 مرتبہ زمین پر گرے۔اس کے بعد مقام امام زمانہ دیکھا جہاں امام زمانہ کو اپنے جد کے لئے روتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ ان کے ساتھ مقام امام جعفر صادق کی زیارت کی۔جو زیارت پر آنے والے سفر میں امام کی قیام گاہ ہوا کرتی تھی۔یزیدی فوج کے جرنیل جناب حر رض امام حسینؑ سے 10 کلومیڑ کے فاصلے پر دفن ہیں۔اس لئے کہ حر کا خاندان انہیں اٹھا کر وہاں لےگیا تھا۔محمد اسماعیل صفوی نے حکومت عراق کی اجازت سے حضرت حر کا تعویذ قبر کھولا۔ تاکہ دیکھ سکوں کہ جناب حر رض کا سر جناب سیدہ س کے رومال سے بندھا ہے یا نہیں۔جب نبش قبر کی اور رومال دیکھا تو حیران و ششدر رہ گئے۔حر کا فرق مبارک رومال فاطمہ سے بندھا تھا۔شاہ اسماعیل نے رومال کھولا باریک دھاگہ اپنے کفن کے لئے لیا۔ کربلا میں چوبیس گھنٹے رونق رہتی ہے کوئی ایسا لمحہ نہیں ہوتا جب یا حسین ع کی آواز نہ آرہی ہو۔ کربلا سے عجیب انرجی مل گئی ہے۔ اللہ ہمیشہ زیارت امام حسین نصیب میں رکھے آمین یا رب العالمین
٭٭٭