!!!انمول لوگ

0
160
ماجد جرال
ماجد جرال

گزشتہ دنوں ایک غیر ملکی جریدے پر ایک کالم پڑھ رہا تھا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح پاکستان کے مایہ ناز گلوکار استاد بڑے غلام علی خان نے پاکستان کی شہریت ترک کر کے بھارت کی شہریت اپنائی۔ یہاں پر فنکاروں اور گلوکاروں کو پاکستان میں روز اول سے ہی ایک سطعی لفظ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، وہاں ان کی عزت و تکریم کو ان کے سامنے بھی مجروح کرنے کی روایت نے ہمارے ملک میں فن اور فن کار کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔بات بڑے استاد غلام علی خان کی ہورہی ہے جن کے مداحوں میں بھارتی باپو گاندھی جی سمیت بڑے بڑے تاجر ٹائیکونز اور خود اندرا گاندھی بھی رہی ہیں۔ استاد بڑے غلام علی خان گائیکی کی دنیا میں اپنے دور کے تان سین سے بھی بڑے استاد مانے جاتے تھے۔دنیا نے جس کو سر آنکھوں پر بٹھایا، ہمارے ملک کی اشرافیہ نے اسے ایک چپڑاسی کے ساتھ بٹھا کر بیٹھا کر اس کی تذلیل کرنا مناسب سمجھا۔غیر ملکی جریدے کے کالم میں واقعہ کچھ یوں بیان کیا گیا کہ استاد بڑے غلام علی خان ریڈیو پاکستان کے پہلے جنرل منیجر زیڈ اے بخاری کے کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بڑے تکبرانہ انداز میں کہا کہ آپ کے جرات کیسے ہوئی بنا اجازت میرے کمرے میں آنے کی جس پر استاد بڑے غلام علی خان نے جواب دیا کہ آپ جیسے تو اس ملک میں ہزاروں ہیں مگر استاد غلام علی خان ایک ہی ہے۔
اس واقعے کے بعد اگرچہ انہوں نے تلخی مٹانے کے لیے کوشش کی مگر بخاری نے ان سے ملنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے کمرے کے باہر چپڑاسی کو حکم دیا کہ اس میراثی کو روک کر رکھو اور اندر نہیں آنے دینا۔ یہ بات استاد بڑے غلام علی خان نے سن لی اور دل برداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
یہ کہانی اس حوالے سے بڑی دردناک ہے کہ ایسی کئی مثالیں ہماری تاریخ میں ملتی ہیں جب ہم نے لوگوں کے مرنے کے بعد ان کے لیے بڑے القابات تراشے مگر ان کی زندگیوں میں کبھی ان کی ستائش نہ کرسکے۔اس سے بھی بڑھ کر افسوس تو یہ ہے کہ پرائی مٹی نے ان انمول ہیروں کی قدر کی اور ان کی زندگیوں میں ہیں انہیں ان اعزازات و القابات سے نوازا جن کے وہ صحیح حقدار تھے۔آپ تاریخ اٹھا کردیکھیں کہ کتنے ایسے افراد ہیں جو سرحد پار جاتے ہی دیوتا بن جاتے مگر اپنی سرزمین پر ان کے لیے زندگی بھی تنگ کردی جاتی۔مجھے استاد غلام علی خان کا ایک انٹرویو یاد آرہا ہے جب انہوں نے بھی انہی فقرات کو دہرایا تھا کہ جب میں لاہور ہوتا ہوں تو میری پہچان ایک گلوکار سے زیادہ نہیں ہوتی مگر واہگہ بارڈر پار کرتے ہی میں دیوتا بنا دیا جاتا ہوں۔نصرت فتح علی خاں مرحوم کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اگر وہ پاکستان رہتے تو کبھی اتنے بڑے گلوکار نہ بن سکتے مگر سرحد پار جا کر ان کے فن گائیکی کو وہ کمال کہ آج ہر جگہ انہیں گائیکی کا اُستاد مانا جاتا ہے، بلکہ ان کے گیت انہی کی بحر میں گانا ہر گلوکار اپنے لیے اعزار سمجھتا ہے۔انہی کے بھتیجے راحت فتح علی خان، عاطف اسلم سمیت کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔غرض ہم اشرافیہ یا با اثر طبقہ ان انمول ہیروں کو یوں مٹی میں رول دیتا ہے کہ ان کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔صرف اسی ایک میدان میں نہیں بلکہ پاکستان سے کتنے ہی شعبہ جات سے وابستہ افراد نے جب دیگر زمینوں کا رخ کیا تو ان کو ان کی قابلیت سے بڑھ کر سب کچھ ملا۔میں نہیں جانتا کہ وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے قابل لوگ اپنی ہی سرزمین پر وہ سب کچھ حاصل کرپائیں گے جس کے وہ حقدار ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری مٹی زرخیز ہے، مگر اس مٹی پر قابض ان غیر پیشہ ور اور غیر سنجیدہ افراد کا اثر گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے انمول ہیروں کو بے اثر کر رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here