بے وقوفیاں…!!!

0
218
ماجد جرال
ماجد جرال

یہ ناممکن ہے کہ انسان کی زندگی میں ہر کام درست ہو کبھی کبھی بے وقوفیاں بھی سرزد ہو جاتی ہیں، ان بے وقوفیوں کو یاد کرنے کا اپنا لطف ہے۔ ہم میں سے بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اپنے کالج اور یونیورسٹی دور کے ایسے واقعات جو بے وقوفی پر مبنی ہوتے ہیں،انہیں یاد کر کے بے حد مسکراتے ہیں۔ مگر تصویر کا دوسرا رخ اس کے بالکل الٹ ہے۔ یعنی دوسروں کی بے وقوفی پر مسکرانے کے بجائے ہم افلاطونی ٹرین پر سوار ہو جاتے ہیں۔ دوستوں میں تو ہم اپنی بیوقوفیوں کا تذکرہ کرتے ہی رہتے ہیں مگر آج اس صفحے پر میں اپنے صحافتی دور کا ایک بے وقوفی کا تذکرہ کرتا ہوں۔ یہ واقعہ ہمارے میڈیا کی بریکنگ نیوز کی وجہ سے ہوا۔ 2010 یا 2011 کی بات ہے، میں سی این بی سی پاکستان میں رپورٹنگ کرتا تھا، مولانا فضل الرحمن جو کہ اس وقت وفاقی وزیر تھے، منسٹر انکلیو میں ایک پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ اچانک کراچی سے کال آئی کے اسلام آباد میں دھماکہ ہو گیا، فوراً جائے وقوعہ پر پہنچو۔ احترام دیگر ٹی وی چینلز کے رپورٹر کو بھی کالیں آنا شروع ہوگئی، کدھر سیجو سنا، اس کے مطابق بارہ کہو کے قریب دھماکا ہوا تھا۔میں نے اصرار بھی کیا کہ مجھے جائے وقوعہ پر پہنچ لینے دے اس کے بعد میرا بیپر کر لیجئے گا، مگر کراچی والے نا مانے اور ٹیلی فون لائن اسٹوڈیو میں ٹرانسفر کرنے کے بعد مجھے آواز سنائی دی، ” واقعے کی مزید تفصیلات جائے وقوعہ پر موجود اپنے نمائندے ماجد جرال سے جانتے ہیں،،،،،جی ماجد “اس وقت اینکر جس انداز میں چیخ چیخ کر دھماکے کا لفظ استعمال کر رہی تھی اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ شاید کوئی بہت بڑا دھماکہ ہو گیا ہے۔ میں نے بھی اسی طرح رد عمل دیتے ہوئے بتانا شروع کر دیا کہ دھماکے میں سینکڑوں افراد زخمی اور بڑی تعداد شہید ہونے کی اطلاعات ہیں!!!!اینکر نے دوسرے سوال میں جائے وقوع کی تفصیلات پوچھیں تو میں نے بتایا کہ کھڑکیاں، دروازے ٹوٹ گئے، دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی، افراتفری کا عالم ہے۔ واضح رہے کہ میں اس وقت تک جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھا جس کا کراچی میں ہیڈ آفس کو بھی بخوبی علم تھا۔ جب میں کچھ دیر بعد جائے وقوعہ پر پہنچا تو پتہ چلا دراصل یہ ایک کریکر دھماکہ تھا، جو اسلام آباد سے بارہ کہو جانے والی سڑک پر لیک ویو کے قریب ہوا، دود دور تک آبادی کا نام نشان نہیں اور صرف 2 یا 3 پولیس والے اس جگہ پر موجود تھے جہاں کریکر بم پھٹنے کی وجہ سے ایک معمولی سا گڑھا پڑا تھا۔ (کریکر دراصل اوجڑی کمیپ واقعے کے وہ چھوٹے بم ہیں جو اسلام آباد اور راولپنڈی میں گرے تھے، کچھ چل گئے اور کچھ سو گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اوجڑی کمیپ واقعے کی انکوائری رپورٹ کی طرح سو جانے والے بموں پر بھی مٹی پڑ گئی اور کبھی کبھار ان میں سے کوئی جاگ جائے تو ہلکے سے دھماکے کے ساتھ اعلان بیداری کرتا ہے جس سے 99فیصد کوئی نقصان نہیں ہوتا)امید ہے کہ آپ افلاطونی ٹرین پر سوار ہونے کی بجائے اس واقعے پر مسکرائیں گے، خبر آن آئیر جاتے وقت لوگوں کی نفسیات پر کیا اثر پڑا ہو گا اس کا مجھے بھی بخوبی کے ساتھ ہے، مگر یہ ایک ایسا بے وقوفانہ واقعہ ہے جو کبھی کبھی مجھے بے حد مسکرانے پر مجبور کردیتا ہے۔ ناکامی اگر کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے، تو ہم یہ ماننے کیوں تیار نہیں کہ بے وقوفی عقلمندی کی جانب پہلا قدم ہے۔
ضروری نہیں کہ یونیورسٹی اور کالج فیلو اس کے ساتھ ہی بیٹھ کر بے وقوفیاں یاد کریں بلکہ آپ کی زندگی میں جو لوگ بھی ہیں کبھی کبھی ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے ساتھ اپنی بے وقوفیاں شیئر کریں، ان کی سنیں اور قہقہے لگائیں۔ اگر آپ کے عقلمند دماغ کو مساج کی ضرورت ہے تو یہ ضرورت صرف بیوقوفیاں یاد کرنے سے ہی پوری ہوسکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here