مشیر طالب چلا گیا بڑی خاموشی سے جس طرح اس نے کبھی کسی چیز کا شکوہ نہیں کیا اور یہاں بھی خاموشی اختیار کرلی۔کسی کو یقین نہ آیا اور جب ہم اسے لحد میں اتار آئے تو پہلی بار محسوس ہوا کہ میں تنہا رہ گیا۔ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔دھوپ تھی، موسم گرم تھا جب تابوت کو وین سے اتار کر کاندھوں پر لایا گیا۔موسم تیزی سے بدلا بادل چھانے لگے۔اسے لحد میں اتار دیا گیا اور مٹی کو کرین نے منٹوں میں اُٹھا کر اس کے اوپر لاد کر قبر کی شکل دے دی سب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے اور جب دعا ہوچکی تو بوندہ باندی شروع ہوگئی یہ میری پسند کا موسم تھا۔ابرآلود آسمان مجھے پسند تھا جب دھوپ ہوتی تھی تو میں اس سے کہتا مجھے چڑہے اور جب بادل چھا جاتے تو ہم گارڈن سٹی کے میکڈانلڈ میں بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہوتے تو وہ کہتا تو اب تمہاری پسند کا موسم ہے شاید لحد میں اتارتے وقت اسے میری پسند کا خیال تھا اور اللہ نے منٹوں میں اسکی پسند کے بعد میری پسند کا موسم کردیااسے یہاں بھی میرا خیال تھا اس سے جڑی ہزاروں باتیں ہیں جو مجھے یاد آتی رہیں گی۔میں ہی نہیں شمالی امریکہ میں جہاں بھی ادب اور شاعری کے دلدادہ ہیں وہ سب مشیر طالب سے اپنی اپنی یادوں کے ذریعے جڑے رہیں گے۔سوشل میڈیا پر اس کے انتقال کی خبر میں نے ڈالی تو بیسوں احباب نے اپنے اپنے خیالات اور دکھ کا اظہار کیا۔میرے اور مشیر طالب کے دوست، واصف حسین واصف، صوفی مشتاق اور یونس شرر نے تورُلا دیا۔ایسا تو میں نے کبھی کسی قریبی عزیز کے انتقال پر بھی سنا اور پڑھا نہیں تھا اور بقول اسکے ”زندگی میں کوئی ایسا کام کرو کہ لوگ تمہیں جانے کے بعد یاد کریں”یا پھر احمد ندیم قاسمی نے یہ شعر مشیر طالب ایسے پیاروں کے لئے بہت سال پہلے!
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
واصف حسین واصف نے سوشل میڈیا پر لکھا
”مشیر طالب میرا دوست تھا بہت پرانا مگر جب ملا بہت نیا لگا، رکھ رکھائو ساتھ لے کر چلتا تھا، نہ تھکا نہ اُلجھا مسکراتا رہتا تھا۔کبھی کبھی ہم سوچتے وہ ہم کو دیکھ کر مسکراتا ہے ہم جو آزاد لپیٹے چلتے ہیں اور درد سناتے ہیں۔مشیر بیمار ہو اتو تشویش ہوئی۔آخری کال تھی۔”میں ہاسپٹل میں ہوں۔”پھر کوئی کال نہ میسیج ایک زندہ دل انسان کو کرونا نے آلیا تھا۔اسی مشیر طالب کو مٹی کے سپرد کرکے آرہا ہوں مٹی نے زندگی بھر مشیر کے بہت ناز اُٹھائے بہت پیار آیا تو اسے پکار لیا۔یہ جس کو مرنا کہتے ہیں اس میں اور کچھ نہیں بس آنکھیں بند ہوتی ہیںاور جب لگ جاتی ہے۔بند آنکھوں کے بھی ہزار معنی اور چپ کے ہزار مطلب مشیر تابوت میں تھا جب مٹی قبر میں انڈیلی گئی تو تیز ہوا اس کو ڈھونڈتی چلی آئی۔اور بادل بھی رو پڑا تیز ہوا نے قبر سے کچھ پھولوں کی پتیاں پڑوس کی قبروں پر بھی ڈال دیں۔مشیر بہت نفیس انسان تھا۔دوستوں سے زندگی بانٹی اور بٹوا کھلا رکھا۔تدفین کے بعد تیز ہوا اور بادل کی غرہ داری دل چیر گئی مشیر کی نیچر سے اتنی وابستگی تھی کبھی سوچا نہ تھا اس کی شاعری میں مٹی، ہوا، بادل اور آنسو کا سا فتیہ نہیں بنا۔عجیب شخص تھا۔زندگی مشیر کے ساتھ ساتھ چلی جینے کا ہنر تھا۔مشیر کو سلوٹیں پسند نہ تھیں جمالیات آنکھ میں تیرتی تھی مشیر کا مذہب کی طرف رحجان تھا میرے افکار سے اسے اختلاف رہا۔
اس سانحہ ارتحال کا پرسہ تو شرر اور کامل احمر کو بھی دینا ہے۔مفارقت تو مفارقت ہے۔وہ بھی تو متاثرین میں ہیں۔ہاں کل ہماری باری ہے” یہ سب کچھ سب کے دل کی بات ہے سوچ ہے اور مشیر طالب کا اسکیچ ہے۔
بونس شررجن سے ملے بغیر مشیر کو چین نہ آتا تھا ہر ہفتے مجھے گھسیٹ کر لے جاتے تھے کبھی پارکنگ نہ ملتی تو ملے بغیر آجاتے ہیں کہتا میں نے کہا تھا پارکنگ ملنا محال ہے اس کا جواب ملتا۔یار فون کرکے بتا دیا ہم پاکنگ کے لئے بھٹک رہے ہیں انہیں ڈھارس تو رہیگی۔کہ ہم ان کو دل میں رکھ کر چلتے ہیں۔”مشیر ہی نہیں وہ سب کو دل میں رکھ کر چلتا تھا۔شرر نے یہ خبر سن کر کیا سوچا ہوگا یہ ہی کہ یہ سہارا بھی گیا۔دوست بڑھاپے میں ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں۔وہ لاٹھی بن جاتے ہیں پھول کی خوشبو کی مانند رچ بس جاتے ہیں۔شرر نے مجھے فون پر کہا’جانا مجھے تھا اور چلا وہ گیا۔پھر سسکنے لگے میں نے ایسے مضبوط اور جڑر انسان کو پہلی بار روتے سنا۔اپنی بیگم کی وفات پر بھی نہیں صرف خالی آنکھوں سے دکھ کا اظہار تھا، بے چاء گای تھی بہت دیر وہ فون پر خاموش رہے اور یہ جملہ میرے دل ودماغ کو چیرتا چلا گیا۔
”اب کس لئے جینا ہے کامل میرا تو سب کچھ ہی چلا گیا”مجھے اس کا احساس وہ مشیر کیساتھ بیٹھے شعروشاعری میں الجھے رہتے تھے قافیہ اور الفاظ کی اصلاح ہوتی تھی۔اور میں سامنے صوفے پر سو جاتا تھا مشیر مجھے جگاتا اٹھو بھائی حیدرآباد جنکشن آگیا ہے۔
صوفی مشتاق ایک مدبر اور اور ملنسار انسان ہیں۔میں ان کی باتوں سے کافی متاثر رہا ہوں ان کا مطالعہ ہے بڑی بڑی کتابیں جن میں فلسفہ، سائیکالوجی، معیشت شامل ہیں۔جانو کہ گھول کر پی گئے ہیں انکی پوسٹ سوشل میڈیا پر پڑھی لگا یہ ہم سب کے جذبات کی عکاسی ہے۔مشیر طالب کو انہوں نے جس طرح پڑھا وہ یوں ہے۔
”وہ بیس سال پہلے ملا تو باتوں باتوں میں اس نے اپنی عمر بتائی تو میں شر سادھ سا ہوگیا۔چونکہ میں اس کی شگفتگی ہیت اور توانائی سے اسے نوجوانوں ہی سمجھ رہا تھا۔یقین کبھی نہیں آیا اتنی لمبی عمر اس سلیقے اور توانائی سے جینا فقط مشیر طالب ہی کا طرہ امتیاز تھا اس کا متحرک وجود ایک لمحہ بھی ضعف ضعیفی کا شکار ہوا ہو بالکل جیسے اس کی شاعری میں کبھی بھی اسلوب وعروض کی کبھی کسی نے محسوس کی ہو۔میں کئی یاد اسے کہتا مشیر تو سب کے جنازے اٹھا کر بھی اکیلا حلقہ ارباب ذوق کی محفل سجا کے بیٹھا ہوگا۔بے شک آج طاہر خان یونس شرر اور کامل احمر تینوں کے وجود کا ایک حصہ کٹ گیا۔وہ جو ہمارا ادبی محفلوں کا جہاں بھی ساتھ لے گیا۔اب تو ہم سب کو خود کے جنازے شاید اپنے کاندھوں پر ہی لے جانا ہونگے خزاں رسیدہ درخت جاں کے زرد پتے جھڑ چکے تمام کچھ لرزتے لڑکھڑاتے بھی جانے کی تیاری میں ہیں۔لو جی ہماری نسل کا نیویارک میں قصہ تمام ہوا الوداع لوداع مشیر بھائی علیگڑھ المنائی کی طاہرہ حسین نے ان الفاظ میں مشیر طالب کو خراج تحسین پیش کیا۔ادبی محفل کی جان تھا وہ سب کچھ بے رونق ہوگیا ایسا انسان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا جو تن من دھن سے دوسروں کی محلفیں سجائے۔ادبی اور شاعری کی دنیا میں ایک معتبر نام فرح کامران ”مشیر طالب کا چلے جانا نیویارک کے ادبی قبیلے کے لئے کسی سانحہ سے کم نہیں حلقہ کی مجلس عاملہ اور ارکان برابر کے شریک ہیں اس غم میں”
فلمکار قلمکار، افسانہ نگار ممتاز حسین نے دکھ کے ساتھ پوسٹ کیا”میرا بہت اچھا دوست بچھڑ گیا۔نیویارک کا محمد رفیع چلا گیا” اور نیویارک میں، نعتیہ، کلچرل اور سماجی محفلیں اور میلے سجانے والے بشیر قمر نے خراج عقیدت کے پھول نچھاور کئے۔مرحوم انتہائی خوش گھنتار اور ملنسار شخصیت کے مالک تھے۔نجیت بخاری نے کہا
”نفیس اور ملنسار تھا مشیر طالب بہت
فرشتہ صفت انسان تھا مشیر طالب بہت
پاسنی کے فضل الحق سید نے سوشل میڈیا پر لکھا”پاکستانی کمیونٹی اور خاص کر ادبی محفلوں میں یہ بری خبر سب کو ملی کہ ایک نہایت خوش اخلاق نفیس اور شریف النفس شاعر جناب مشیر طالب ہم سے جدا ہوگئے۔”ہیوسٹن سے سلمان یونس، موزح، محقق اور دانشور سلمان یونس کا کہنا تھا ہر لحاظ سے مشیر طالب کی موت اردو سے محبت کرنیوالوں کے لئے شمالی امریکہ میں عظیم سانحہ ہے اور بڑا نقصان”
گریش واڈیا نے اپنے دکھ کا اظہار یوں کیا”مجھے گہرا دکھ پہنچا ہے۔اس خبر سے میں ہل گیا ہوں اوم شانتی”مفتی عبدالرحمن قمر”دعائے مغفرت کا پیغام بھیجا فری شنگری نے معموم انداز سے لکھا”ایک چراغ بجھا اور بڑھی تاریکی غم کی اس گھڑی اور رنج کی کیفیت میں الفاط، تعزیت کا لبادہ اوڑھنے سے قاصر ہیں۔موت کا کوئی موسم نہیں آپ ہمارے دلوں میں ہمیشہ قیام کرینگے۔ہماری پوسٹ کے جواب میں سینکڑوں تعزیتی پیغام آئے ہیں۔مشیر طالب کے لئے اور ہم لکھتے چلیں کہ مشیر کو اس کا بھی دکھ تھا کہ سوشل میڈیا نے پرنٹنگ میڈیا کو ہڑپ کرلیا ہے۔کچھ رسائل رہ گئے ہیں جن کا زندہ رہنا ضروری ہے۔انہوں نے چہار سو اور سیپ کے لئے یہاں مالی تعاون کی آواز اٹھائی مجھے اپنے ساتھ رکھا اور جڑے رہے مجھے بھی جوڑے رکھا یاد ہے البنی نیویارک میں ”روشنی” کے مدبر مرحوم آفاق کی دعوت پر مجھے لے گئے اس تقریب میں آفاق نے دوسرے شعراء کے ساتھ انہیں بھی ایک لفافہ نذر کیا لیکن موصوف نے الٹا ایک لفافہ انکی نذر کردیا کہ روشنی پھیلاتے رہو۔مشیر مد درجہ وضعدار انسان تھا۔اسے بھولنا ناممکن ہے ہر چند کہ وہ مجھے تنہا کر گیا ہے۔
٭٭٭