قارئین ! کرونا قریہ قریہ نگر نگر خوف و دہشت بکھیرتا ہوا ملکوں ملکوں تباہی پھیلا رہا ہے، آجکل انڈیا میں لاکھوں انسانوں کو لقمہ اجل بنا رہا ہے ۔اسکی ہولناکیوں نے خوف و دہشت پھیلا رکھی ہے ،خوف کا یہ عالم ہے کہ اللہ سبحانْہ تعالیٰ کے منکر اور بھٹکے ہوئے انسان بھی اللہ کو یاد کررہے ہیں۔ایک ایسی تحریر جو اس خوف کی فضاء میں دلوں کو سکون دے اگر آپ بھی سکون سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس میسج کو ضرور پڑھیں اور سب کو شیئر بھی کریں شکریہ*ایک ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ مجھے تو کرونا کے پھیلائو کی سمجھ نہیں آرہی یہ کیسا کرونا ہے؟ کہ پوری دنیا میں پھیل چکا ہے؟ میڈیکل سائنس کی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیں، 10 ہزار سالوں میں ایک دفعہ بھی ایسی کوئی بیماری نہیں آئی جو ایک ہی وقت میں دنیا کے ہر ملک ہر جزیرے میں پھیل جائے ، صرف بندے کو پڑتی ہے یہ وباء ، سارے دنیا کے جانور محفوظ ہیں، بچوں کو نہیں ہوتی۔ صرف بڑے لوگ زیادہ اس سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہ غریبوں کو بھی نہیں لگتی۔ صرف امیر اس سے متاثر ہوتے ہیں جس کو بھی لگی ہے وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھے کہ وہ Upper class میں شامل ہوگیا ہے۔ ایسا کبھی دس ہزار سال میں نہیں ہوا کہ وائرس منفی 50 ڈگری پر بھی سب کو پڑگیا اور جہاں درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہے وہاں پر بھی حملہ آور ہوگیا۔ یہ کونسی وباء ہے؟ بخاری: (5739 ) اور مسلم: (2219) میں عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا (جب بھی کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو) اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وبائی مرض صرف ایک علاقے تک محدود ہوتا ہے پوری دنیا میں نہیں پھیلتا، اگر پوری دنیا میں پھیل چکا ہے تو پھر علاقہ چھوڑنا نا چھوڑنا برابر نہیں ہوگیا؟ یہ حدیث بہت کلیئربتاتی ہے کہ وبائی امراض ایک خاص علاقے تک محدود ہوتے ہیں، چلیں ایک صوبہ کہہ لیں، چلیں بہت بڑی چھلانگ مارنی ہے تو ایک ملک کہہ لیں، وبائی مرض پوری دنیا کے ہر علاقے میں گھس گیا ہے، یہاں تک کہ وہ علاقہ بھی زد میں ہے جہاں جزیرے ہیں نہ کوئی بندہ نہ روح وہاں گئی اور نہ آتی جاتی ہے پر وہاں کے لوگوں کو بھی لگ گیا جبکہ اس جزیرے کے اردگرد سمندر ہی سمندر ہے؟ تھوڑا سا تو سوچیں، آپ ڈاکٹر ہیں کوئی جاہل گنوار نہیں جس کو جو خبر بھی دے جائے گی، آپ اس کو ڈھول پیٹنا شروع کردیں گے۔ چلیں ایک سوال ہے آپ سے اس وقت چائنا کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔ پوری دنیا میں جہاں سے کرونا نکلا وہ چائنا تھا، لیکن آج ایک بھی مریض جی ایک بھی مریض وہاں کرونا کا نہیں ہے اور نہ کوئی مر رہا ہے۔ جب اس وقت چائنا دنیا کا سب سے پہلے نمبر ملک آگیا ہے جس کے ائیرپورٹ پوری دنیا سے مسافر لارہے ہیں اور لیکر جارہے ہیں، اوبھائی کرونا میں کونسا سینسر لگا ہوا ہے کہ جہاز چائنا ائیرپورٹ پر اترتے ہیں لاکھوں مسافر اندر آتے ہیں اور جاتے ہیں پر وہاں وہ جو 90 ہزار پر کرونا کو بریک لگی تھی، اس کے بعد آج تک ایک بھی مریض کرونا سے نہیں مرا؟ زرا سوچیں خدارا زرا سوچیں یہ کس قسم کا وائرس ہے جو چائنا کی طرف منہ ہی نہیں کرتا، سب سے زیادہ آبادی ہے لوگ بھی نزدیک نزدیک رہتے ہیں، کھاتے بھی حرام خور ہیں۔ پر انہیںکرونا نہیں چمڑتا اور اس کے ساتھ باڈر انڈیا کا ہے اس کے اندر 3 لاکھ روزانہ کرونا انفکیشن اور 3 ہزار اموات روزانہ ہیں، اللہ معاف کرے پھر انڈیا اس وقت کرونا ویکسین کا سب سے بڑی پروڈکشن بھی کررہا ہے۔ ایک کوڑی کا فائدہ نہیں اس ویکسین کا ، کل میں ٹی وی پر دیکھ رہا تھا کہ ہمارے بڑے بڑے بڈھے ڈاکٹرز جو یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز بھی ہیں پہلے کہانی ڈالتے رہے کہ ویکسین لگوائیں ویکسین یہ کردے گی وہ کردے گی۔ رات کو وہی بابا کہہ رہا تھا کہ کرونا ویکسین ابھی پتا نہیں موثر ہے کہ نہیں لیکن ایک بات ہے جس کو ویکسین لگ جائے گی، اس کو کرونا لگ جانے پر بھی اسے کم تکلیف ہوگی۔ انتہائی Stupid ڈاکٹر ہے۔ اوبھائی نہ آپ نے کرونا دیکھا، نہ آپ نے کوئی تحقیق کی، نہ آپ کے پاس کوئی ادارہ ہے جہاں اس پر تحقیق ہوسکے، ساری خبریں ادھر ادھر سے پکڑ کر ٹی وی پر سکالر بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے اپنے وزیر اعظم وہ بیچارا دبے لفظوں میں ہی قوم کو بتا سکتا ہے کہ یہ ویکسین شیکسین کچھ نہیں۔ یہ لگ بھی گئی تو ایک سال بعد پتا چلے گا اس کا کیا بنا۔ وہ ہمارے صدر صاحب پہلے کرونا نہیں تھا، بعد میں ویکسین لگوانے کے کئی دن بعد ویکسین کے باوجود انکو کرونا ہوگیا۔ یہ عام عوام کے سوچنے والی بات نہیں۔ یہ تو ہم جیسے ڈاکٹروں کو سوچنے والی بات ہے کہ کیوں ویکسین کے باوجود کرونا ہوا؟ صدر صاحب کو۔ پھر اگلی کہانی یہ ایک ڈوز تھی اب دوسری لگے گی، پھر کہنے لگے کہ یار سال میں کئی دفعہ لگے گی۔ بندہ پوچھے کہ یار ویکسین تو ایک دفعہ پولیو کی لگوائی جاتی ہے، یہ ہر تین ماہ بعد ویکسین لگانے کی کیا تْک ہے؟ ہمارے اپنے بچوں کو دس دفعہ پولیو ویکسین لگ چکی ہے۔ میں آپ کو گارنٹی سے کہہ رہا ہوں کہ اسکی کوئی میڈیکل تْک نہیں۔ سوائے یہ باہر کے ملکوں سے آرہی اور ہم سب لگوارہے ہیں۔ کوئی پتا نہیں اس میں کیا ہے کیا نہیں۔ نیشنل کونسل فار ھومیوپیتھی کیسابق صدر ڈاکٹر ناصر چوہدری اور ڈاکٹر پرویز قریشی مرحوم نے ایک دفعہ پی سی ہوٹل میں سیمینار کروایا تھا، ہمیں بھی دعوت مل گئی ہم بھی چلے گئے۔ وہاں WHO کا ایک نمائندہ انگریزی میں ھومیوڈاکٹرز کو پولیو ویکسین کے فوائد اور اس کی بوسٹر ڈوزز پر قائل کررہا تھا، اس نے اپنے لیکچر کے بعد سوال کیا کہ کوئی سوال ہے تو پوچھ لیں۔ 200 بندے بیٹھے تھے کوئی ایک بھی نہیں اٹھا، پھر اس نے دوبارہ کہا کہ نہیں سوال کریں، کوئی نہ اٹھا، اب میرے ساتھ ڈاکٹر سید طاہر عباس اور گوجرانوالہ والے ڈاکٹر عمران شیخ بیٹھا تھا، وہ مجھے بار بار Push کریں کہ بابا جی اٹھو سوال کرو یہ بندہ ساڈی بیعزتی کردا پیا جے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ سوال نہ کرنے کا مطلب ہوتا ہے کہ سارے ھال کو یا تو بات سمجھ آگئی ہے یا پھر سارے ہی بدھو بیٹھے ہیں۔ جب اس نے یہ بات انگریزی میں کی تو اب میں دوستوں کے کہنے پر اٹھا اور ایک چھوٹا سا سادا سا سوال اْسے کیا کہ سر ! ہم ڈاکٹرہیں زرا ہمیں یہ تو سمجھائیں کہ یہ آپ لوگ ہمیں یہ مفت ویکسین کیوں دیتے ہیں؟ امریکہ? میں تو ایک دفعہ آپ لگاتے ہیں، دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کوئی ادارہ ہے جو آپ کی بھیجی ویکسین کو عوام میں لگانے سے پہلے چیک کرلے کہ یہ ٹھیک بھی ہے کہ نہیں اور اس میں ہے کیا؟ یہ ویکسین ہی ہے نا؟ اور آخری سوال کہ پولیو کی ایک خوراک پوری زندگی میں ایک دفعہ دینا کافی ہے چلیں کوئی چھلانگ زیادہ مارتا ہیتو ایک اور دفعہ دے دیں لیکن آپ لوگ ہمیں ہر تین ماہ بعد کس میڈیکل سائنس کے قانون کے تحت یہ قطرے پلاتے ہیں؟ اور اب کئی سال ہوگئے ہیں ، ہمیں?ویکسین پیتے ہوئے۔ وہ ریسورس پرسن یہ سوالات سْن کر حقہ بقہ رہ گیا اور کہنے لگا کہ نہیں نہیں?آپ پریشنا ن نہ ہوں?یہ Safe ہے اور جاکر سٹیج پر بیٹھ گیا، لیکن وہاں ایک پاکستانی NIH کا ڈاکٹر بھی بیٹھا تھا وہ سٹیج پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اس WHO کے نمائندے کی کِٹ لگا دی اور بولا کہ نہیں نہیں آپ ڈائس پر جاکر ڈاکٹر صاحب نے جوسوال کیا ہے اس کا جواب دیں۔ آپ ان کو Satisfy کریں۔ اب وہاں پر پنگا پڑ چکا تھا، WHO والا نمائندہ پریشان تھا وہ دوبارہ سٹیج پر آیا اور کہنے لگا کہ آپ صحیح کہتے ہیں، یہاں کوئی ادارہ اس کو چیک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور ویکسین صرف ایک دفعہ لگائی جاتی ہے۔ آپ نے صحیح کہا کہ امریکہ میں بھی صرف ایک دفعہ بچے کو پولیو کی خوراک دی جاتی ہے۔ یہ کہہ کر وہ نیچے اتر گیا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک غیر مسلم تو تھا پر سچا تھا۔ اس نے جو سچی بات تھی وہ کرکے نیچے اتر گیا۔ جبکہ ابھی آپ دیکھتے جائے گا، اس پوسٹ پر ہمارے اپنے غلط بات کو صحیح ثابت کرنے کی ہزاروں جھوٹی دلیلیں دینا شروع ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔ جھوٹ دھڑلے سے بولتے ہیں۔ یاد رکھیں آپ وہ بات کریں گے جو آپ کو میڈیا، اخبارات اور سوشل نیٹ ورک کے ذریعیآپ کے دماغ میں فیڈ کی گئی ہے اور ہم وہ بات کررہے ہیں کہ جو ہمارا دماغ سوچ کر سوال اٹھارہا کہ یہ کبھی کہتے ہیں کہ یہ کرونا ویکسین اصل کرونا ہے جس طرح پولیو وائرس لیکر ویکسین بنائی جاتی ہے اس طرح تیار نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ ایک Messenger ویکسین ہے۔ جو کرونا کا چھاکا جسم کو دے گی اور جسم اس کے خلاف اینٹی باڈیز بنائے گا، اگر جسم چھاکا یعنی دھوکا کھا گیا تو اینٹی باڈیز بن جائیں گی ورنہ نہیں۔ یہ بات بھی انہی لوگوں نے ہمیں فیڈ کی ہے۔ لیکن ہم ان سے سوال کررہے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ہرجگہ فضائ میں اور زمین کے اندر دو میل اور ہر علاقے میں یہ کرونا کیسے پھیل سکتاہے جس پر کسی گرمی کسی ٹھنڈ کسی موسم کا کوئی اثر نہی؟ کیوں؟۔۔۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ چائنا کے پاس کونسی گدڑ سنگھی ہے کہ اتنے بڑے ملک میں صرف تین دن کے اندر اندر 85 ہزار کی انفکیشن کو زیرو پر لے آئے؟ جب کہ ویکسین تو ابھی آنا اور بننا شروع ہوئی ہے۔ تیسرا اور اہم سوال یہ ویکسین صرف وہ ممالک کیوں بنار ہے ہیں جو دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
٭٭٭