!!!حضرت علی علیہ السلام کا طرز زندگی

0
128
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

آپ نے ساری زندگی اطاعت خالق اور خدمت مخلوق میں گزاری ، امیر المومنین حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی اطاعت خالق اور خدمت مخلوق میں گزاری ‘آپ سچے عاشق رسولۖ تھے آپ محراب عبادت میں فرماتے تھے ،خدایا توایسا ہی ہے جیسا میں چاہتا ہوں ویسا بنائے رکھنا جیسا تو چاہتا ہے آپ کاشعر آپ کے عقیدے کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ترجمہ میرے لئے یہ قابل افتخار ہے کہ تو میرا ہے ا ور میری عزت کے لئے یہ کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اپنے خالق کی تقدیر پر راضی ہونے کا ذکرفرماتے ہوئے یہ شعر کہا جو کائنات کے لئے درس ہدایت ہے ہم جبار کی تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم اور ہمارے دشمنوں کو جہالت دی بارگاہ ایزدی میں عبادت کے وقت آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑجاتا تھا۔بچپن سے ہی عشق ِرسالت آپ کی رگوں میں اس طرح موجزن تھا کہ آپ ایک لمحے کے لئے بھی توہین رسالت ۖبرداشت نہ کرتے تھے آپ نے اپنے لڑکپن ہی میں قریش کے بچوں کی زبردست مرمت کی جب وہ حضوراکرمۖ کو اذیت پہنچا رہے تھے جیسے ہی آپ نے ان سے پیغمبر کی توہین کا بدلہ لیا تو پھر کبھی ان بچوں کے آباؤ واجداد کو آنحضرت ۖکے سامنے جسارت کرتے نہ دیکھا گیا آ پ خندہ جبین شگفتہ مزاج پیکر اخلاص ‘ شب بیدار ‘ غمخوار اور اخلاق نبویۖ کا پیکر تھے غریب وامیر ‘ اعلیٰ وادنیٰ ‘ سرکاری وغیر سرکاری سب سے یکساں سلوک کرتے تھے۔ غلاموں سے عزیزوں جیسا سلوک کرتے تھے ،مزدوروں کو بوجھ اُٹھانے میں مدد دیتے تھے خود بینی اور خود نمائی سے نفرت کرتے تھے انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے تھے عام لوگوں کی طرح سادہ اور معمولی خوراک کھاتے تھے اور انہی کی طرح پوشش کا استعمال فرماتے تھے اپنے لباس کو خود پیوند لگاتے امور خانہ میں اپنی اہلیہ کی مدد کرتے عمومی فائدے کے لئے چشمے کھودتے تھے درخت لگاتے تھے کھیتوں کوپانی لگاتے کسبِ معاش کے لئے مزدوری کوعار نہ سمجھتے تھے بیت المال کی عادلانہ تقسیم کے ساتھ بروقت مستحق تک پہنچاتے تھے کبھی رنگ ونسل کی تفریق کا اظہار نہ فرماتے ‘ مہمان نوازی کو سعادت سمجھتے بغض وحسد کینہ وانتقام جوئی سے دور رہنے کی ہمیشہ تلقین فرماتے دوستوں کی طرح دشمنوںپر بھی مہربان تھے عفوودرگذر سے کام لیتے دینی معاملات میں انتہائی سخت معاملات مذہبی میں کسی کی رورعایت نہ کرتے تھے دشمنوں کے مقابل پر بھی کبھی مکاری سے کام نہ لیتے مناجات میں گریہ فرماتے تعقیبات صبح کے پابند تھے درس فقہ وقرآن پابندی سے دیتے تھے گہری فکر میں مبتلا رہتے دنیا سے نفرت اور آخرت سے محبت فرماتے تھے ۔مشہور مؤرخ جناب مسعودی نے لکھا ہے کہ دوران حکومتآپ کو کبھی نیا لباس پہنے نہ دیکھا گیا آپ عموماً سر پر عمامہ باندھتے اس لئے کہ یہ عربوں کاتاج ہے کبھی کبھار آپ کو کپڑے کی ٹوپی بھی پہنے دیکھاگیاآپ کے ایک صحابی نوف بکالی کے مطابقآپ کے جسم مبارک پر میں نے کرتا اور پاؤں میں کھجور کے پتوں کے بنے ہوئے جوتے کو ایک عرصہ تک دیکھاآپ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے یاقوت ‘ عقیق ‘ اور حدید کی انگوٹھیاں بدل بدل کر پہنتے تھے۔ اپنے ہاتھ میں عصا رکھتے خطبہ دیتے وقت تلوار پر ٹیک لگاتے تھے آپ گوشت کا استعمال بہت کم کرتے تھے آپ کا یہ فرمان زبان زدعام ہے کہ ” اپنے پیٹ کو حیوانات کے گوشت کا قبرستان نہ بناؤ”
ایک مرتبہ ایک غلام نے تین مرتبہ پکارنے کے باوجود جواب نہ دیا توآپ نے اس سے جاکر پوچھا کہ تم نے جواب کیوں نہ دیا تو کہنے لگا مجھے آپ سے کوئی خطرہ نہ تھا جس پرآپ نے مسکرا کر راہِ خدا میں آزاد کردیا آپ کی سخاوت نے آپ کو تاجدار ہل اتی بنایا جب کسی نے کہا کہ حاتم طائی نے اپنے محل کے چالیس دروازے بنائے ہوئے تھے تاکہ ایک فقیر باربار ایک دروازے سے آتے ہوئے شرمسار نہ ہو توآ پ نے فرمایا حاتم طریقہ سخاوت سے آشنانہ تھاورنہ فقیر کو ایک ہی دروازے سے کیوں نہ اتنا دے دیا جائے کہ دوسرے دروازے پر جانے کی حاجت نہ رہے ۔
ہر ایک کے حالات معلوم کرتے ،مددکرتے اور رات کی تاریکی میں ان کے دروازوں پر غلہ اور لکڑیاں رکھ آتے اکثر لوگوں کو آپ کی شہادت پر خبر ہوئی کہ ان پر مخفی احسان کرنے والے آپ تھے ایک مرتبہ آپ کا ایک دوست آپ کو ملنے آیا شب کا وقت تھاآپ بیت المال کے حساب میںمشغول تھے آپ نے آنے والے سے سوال کیا کہ تمہارا ذاتی کام ہے یا سرکاری اس نے کہا ذاتی توآپ نے چراغ گل کردیا اور فرمایا ذاتی کام کے لئے سرکاری دیا استعمال نہیں ہوسکتا ایک مرتبہ رات کے انتہائی حصہ میں بیت المال آگیاآپ نے فورًا تقسیم کردیا اور فرمایا کہ کل تک زندگی کا کیا بھروسہ۔ جب بیت المال تقسیم فرمالیتے تو اپنے ہاتھ جھاڑ دیتے اور دورکعت نماز شکر بجالاتے آپ سے پہلے لوگوں کو کنویں کے اندر قید رکھا جاتاتھامگر آپ نے آکر باقاعدہ جیلیں تعمیر کروائیں ۔ ایک مرتبہ ابن عباس گورنر بصرہ نے کثیر مال حاضر خدمت کیاآپ نے مال کو بیت المال میں رکھا۔ ابن عباس بازار گئے تو کیا دیکھا کہ حضرت علی اپنی تلوار بیچ رہے ہیں توفرمایا کہ میراکرتا اتنا پرانا ہوگیا ہے کہ اب پیوند نہیںلگ سکتے اور مجھے پہنتے ہوئے شرم آتی ہے ابن عباس نے کہاآپ کے گھر میں اتنی رقم نہیں ہے فرمانے لگے اگر اتنی رقم ہوتی تو اپنی محبوب تلوار کو کبھی نہ بیچتا ‘ ابن عباس نے کہا میں نے ابھی بیت المال پیش کیا اس میںآپ کا حصّہ بھی ہے فرمانے لگے میں بیت المال کو اپنی ذات کے لئے استعمال نہیں کرتا۔ جنگِ صفین پرجاتے ہوئے ایک نجومی نے آپ سے کہا کہ ستارہ آپ کاگردش میں ہے آپ نے فرمایا واپسی پر ضرور ملاقات کرنا جنگ جیت کرواپس آئے توآپ نے نجومی سے کہا ستارہ گردش میں تھا تو جیت کیسے گئے نجومی نے کہا آپ نے اپنی تلوار کی ضرب سے ستارے کو گردش سے نکال لیا ‘ گویاآپ نے مسلسل جدوجہد سے تقدیر کے بدلنے کا درس دیا ‘ بقول اقبال
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جوہوذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آپ نے اپنے دور حکومت میں اپنے حقیقی بھائی عقیل کو بیت المال سے اضافی وظیفہ دینے سے انکار کردیا تھا اور جب دعوت میں مرغن غذائیں دیکھیں تو پوچھا یہ سب کچھ تم نے کیسے تیار کیا ‘ عقیل نے کہا جو وظیفہ ملتا ہے اس سے بچاتے رہے کہ آپ کی دعوت کریں گے توآپ نے اس معینہ وظیفے میں بھی کمی کردی۔
جنگِ صفین سے واپسی پر ایک زرہ کھوبیٹھے چندروز بعدایک عیسائی کو پہنے دیکھا توآپ نے قاضی شریح کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا نصرانی نے عدالت میں کہا قبضہ دلیل ملکیت ہے حضرت علی نے فرمایا میں نے یہ زرہ نہ اسے بیچی ہے نہ ہبہ کی ہے قاضی متردد تھا آپ نے فرمایا وہی فیصلہ کرو جو تمہارا منصب کہے ‘ قاضی نے عیسائی کے حق میں فیصلہ کردیا آپ نے یہ نہ کہہ کرکہ یہ زرہ تونے چوری کی ہے اس عیسائی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہا اس لئے زرہ سے زیادہ ایک انسان کی قدر ہے وہ عیسائی آپ کی عالی ظرفی سے متاثر ہوکر مسلمان بھی ہوگیا اور زرہ بھی واپس کردی آپ نے اپنے دور حکومت میں کاروباری طبقے کی بھی سرپرستی کیآپ کے سیاسی حریف بھی آپ کو سخی اور بااخلاق مانتے تھے
جنگ جمل اور صفین ونہروان وغیرہ کی مشکلات کے باوجودآپ نے کبھی اعتدال کا دامن نہیں چھوڑاآپ حکومت کے افسروں کے تقرر میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے اور ہمیشہ ان کی کارکردگیوں پر نظر رکھتے تھے اور ان کی کوتاہی پر انہیں برطرف کرنے میں دیر نہ کرتے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here