پاکستانی عدلیہ دبائو میں!!!

0
177
رمضان رانا
رمضان رانا

اگرچہ ماضی میں فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر احمد نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو رد کرتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد کو مضبوط کیا تھا جس میں قانون ساز اسمبلی کو توڑنے پر اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس نے قانون ساز اسمبلی کو بحال کردیا جس کو فیڈرل کورٹ نے اپنے فیصلے سے رد کردیا جس کے بعد ملک پر آمریت کے بادل چھا گئے مگر انہوں نے اپنی کتاب جناح سے ضیا تک اپنے گناہوں کا اعتراف کیا کہ کس طرح جنرل ایوب خان نے ملک توڑنے کی بنیاد رکھی تھی۔بنگالیوں کو الگ کرنے کے لیے کہا گیا جس پر آخرکار جنرل یحیٰی خان نے عملدرآمد کرکے ملک توڑ دیا۔جسٹس نسیم حسن نے بھٹو کو پھانسی کے بعد اقرار کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر جنرل ضیاء الحق کا دبائو تھا۔ورنہ بھٹو پھانسی کے حقدار نہ تھے۔چیف جسٹس افتخار چودھری نے جب اسٹیل ملز کی اونے پونے پر مسودے پر عدالتی فیصلہ دیا تو جنرل مشرف اور ان کے چھ جنرلوں نے چیف جسٹس کو مستعفی ہونے پر دبائو ڈالا جس کو چیف جسٹس نے انکار کردیا جس کے بعد انہیں عہدے سے غیر موثر کردیا جن کی سپریم کورٹ باعزت بحال کیا۔جب چیف جسٹس افتخار چوہدری نے جنرل مشرف کے دو عہدوں پر فیصلہ دیا کہ ایک جنرل ایک ہی وقت دو عہدوں پر فائز نہیں رہ سکتے ہیں۔تو جنرل مشرف نے چیف جسٹس سمیت پوری سپریم کورٹ اور ہائیکورٹوں کے ججوں کو برطرف کردیا۔آئین ومعطل اور ایمرجنسی نما مارشلاء نافذ کردیا جس کے خلاف اندرونی اور بیرونی ملک کی تحریک نے جنم لیاچنانچہ دو سال بعد 16مارچ2009کو پوری عدلیہ غیر مشروط بحال ہوئی۔بعدازاں سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کرتے ہوئے حکم دیا کہ جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری قائم کرنے کا حکم دیا جس پر نواز حکومت نے عملدرآمد کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا جس میں جنرل مشرف کو آخرکار سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت نے پھانسی کے احکامات جاری کیے جس پر موجودہ حکومت نے عملدرآمد کرنے سے انکار کردیا ہے۔جو اب پھانسی کے احکامات سپریم کورٹ کے سردخانوں میں پڑے ہوئے ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کے دبائو کو رد کرتے ہوئے اپنی عدالتی کارروائی جاری رکھی جن کو نوازشریف کی اپیل میں سزا برقرار رکھنے کا کہا گیاتو انہوں نے کہا کہ میں میرٹ پر فیصلہ دونگا تو احساس ادارے کے دبائو میں سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کو ان کے عہدے سے برطرف کردیاجس کی آج سپریم کورٹ میں زور وشور سے اپیل سماعت جاری ہے کہ آئی ایس آئی کے اہلکار میجر جنرل فیض حمید،بریگیڈیئر عرفان رامے اور بریگیڈیئر فیصل مروت عدالتی کارروائیوں میں مداخلت کرتے رہے ہیںجس میں جسٹس شوکت صدیقی کو اپنے فیصلوں پر مجبور کیا جاتا رہا۔جب انہوں نے نہ مانا تو بنا تحقیقات سپریم جوڈیشل کونسل نے دبائو میں آکر انہیں برطرف کردیا۔جسٹس قاضی عیٰسی کے فیصلوں کی وجہ سے ان مختلف مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ان کے پورے خاندان بیوی بچوں کو پریشان کیا گیا من گھڑت اور جھوٹے اثاثوں کے نام پر رسوا کیا گیا جس میں جسٹس قاضیٰ عیٰسی کے والدین کو بھی رگڑا گیاجو بانی پاکستان کے دوست،حامی اور حمائتی تھے جن کی مدد سے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا گیا تھا ورنہ بلوچستان پاکستان کے حصے میں نہیں آرہا تھایہاں بھی سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ایک ایماندار جج کو سرخرو کیا گیا جو موجودہ حکومت اور ان کی اتحادی اسٹیبلشمنٹ کو ناگوارا گزرا ہے جو اب دوسرے حیلوں بہانوں سے جسٹس قاضی عیٰسی کو گھیر رہے ہیںتاکہ وہ 2023میں چیف جسٹس آف پاکستان نہ بن پائیں۔چیف جسٹس پشاور وقار سیٹھ مرحوم کو جنرل مشرف کے خلاف اپنے تاریخی فیصلہ دینے پر ان کو سپریم کورٹ کا جج بنے سے روک دیا گیا جبکہ ان سے جونیئر ترین ججوں کو ترقیاں دی گئی ہیں۔جو بچارے کسی نامعلوم کرونا کے ہاتھوں شہادت پا گئے۔جج ارشد ملک مرحوم کو دبائو میں لا کر نوازشریف کے خلاف فیصلہ لیا گیاجن کا انہوں نے اقرار جرم کیا کہ میں نے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کیا ہے۔مجھ پر بلیک میلر اداروں کا دبائو تھا ورنہ نوازشریف سزا کے حقدار نہ تھے۔حال ہی میں پنجاب لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے عسکری اداروں کا زمینوں پر قبضوں کے بارے میں ریمارکس دیئے کہ ان اداروں نے عام عوام سمیت عدلیہ کی بھی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے جس پر عسکری ادارے کے کسی بریگیڈیئر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تو انہوں نے توہین عدالت کی پرواہ کیے بغیر عدالت میں حاضر ہونے سے انکار کردیا جو آئین پاکستان سے انحراف ہے جس پر مقدمہ غداری دائر ہونا چاہئے۔مزیدبرآں چیف جسٹس قاسم خان نے کہا جب میں ریٹائر ہونگا تو پولیس مجھے معاف نہیں کریگی۔جن کے خلاف میں ایکشن لے کر عام عوام کو ریلیف دلوا رہا ہوں۔لاہور ہائیکورٹ کے ایک اور جج شاہد کریم جنہوں نے چیف جسٹس وقار سیٹھ کے ساتھ جنرل مشرف کو پھانسی کے احکامات جاری کیے تھے انہوں نے کل وزیراعظم کے حکم پر عدالتی ایکشن لیتے ہوئے عدالتی حکم دیا کہ مرکز کا صوبوں کے معاملات میں مداخلت آئین کے خلاف ورزی ہے جس کی روح سے صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات دیئے گئے ہیں تاہم پاکستان کی مختصر تاریخ میں بعض ججوں نے جنرلوں کے احکامات سے انکار کیا پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے۔
محمود الرحمان کمیشن میں جنرلوں کو پاکستان توڑنے عیش وعشرت میں مبتلا ملک کو برباد کرنے اور دوسری ملک دشمن پالیسیوں پر عدالتی فیصلے دیئے جس کو چاہے جتنا خفیہ رکھا جائے وہ گھنٹی کی طرح بجتے رہیں گے۔اسی طرح جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ پر ایک دن ضرور عملدرآمد ہوگا۔چاہے وہ برطانوی آمروں اور جابروں کی طرح قبروں سے ہڈیاں نکال سزائیں دی جائیں گی۔بشرطیکہ پاکستان ملک دشمن طاقتوں کے ہاتھوں بچ جائے جس کو واقعی اب1971والے خطرات لاحق ہیں۔بحرحال ججوں کو طاقتور اداروں کے اہلکاروں سے بچاتا اب عوام کی ذمہ داری ہے جو جسٹس قاضی عیٰسی، جسٹس شوکت صدیقی، چیف جسٹس قاسم خان، جسٹس شاہد کریم کی حفاظت کریںجس کے لیے پوری فوج کو اتحاد پیدا کرنا ہوگاتاکہ فرعونوں،غرداروں، ظالموں اور جابروں سے نجات مل جائے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here