رحمت اللعالمین

0
109
شبیر گُل

اے (محمد) ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ھے۔
کائینات کو بنانے والے ، سب کی پالنہار اللہ رب العزت امام الانبیائ ، سرور کائنات ، جناب محمد رسول اللہ کے لئے رحمت العالمین کا لقب فرما رھے ھیں۔
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو سراپا رحمت بنا کر معاشرے سے ظلم و ستم ، ناانصافی مٹانے کے لئے بھیجا گیا۔
آپ کفارو مشرکین کے لئے کیا حیوانات کے لئے بھی سراپا رحمت تھے۔خود پر کوڑا کرکٹ پھینکے والی اور پتھروں سے لہولہان کرنے والوں کے لئے بھی سر آپ رحمت تھے۔
وہ نبئیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بھر لانے والا۔۔
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائی کا غم کھانے والا۔۔۔
خضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم 63 سال کی عمر میں وصال فرما گئے۔
آپ کو بارگاہ الہی سے اشارہ ھو گیا تھا کہ پیغام انسانیت مکمل ھوا اب آپ کی واپسی کاسفر ھے۔
حجتہ اکوداع کے بعد آپکی گفتگو میں الوداعی کی جھلک تھی۔گیارہ ہجری ماہ صفر میں آپ جنت البقیع تشریف لے گئے دعائ کی اور ارشاد فرمایا ھم بھی جلد آپ سے آ ملنے والے ھیں۔قبرستان سے واپسی پر سر میں ہلکا سا درد شروع ھوا مرض کی شدت بڑھنے لگی تو ازواج مطہرات کو جمع کیا اور دریافت کیا بیماری کے دن عائشہ کے گھر پر گزار لوں۔؟ اٹھنا چاہا لیکن اْٹھ نا سکے۔ سیدنا علی مرتضی اور فضل عباس نے سہارا دیا۔ خضور نبء کریم کا پسینہ شدت سے بہہ رھا تھا۔صحابہ نے خضور اقدس کو اس حالت میں دیکھا تو گھبرا گئے۔مسجد نبوی میں شور بڑھنے لگا تو فرمایا یہ کسی آوازیں ھیں۔عرض کیا گیا یا رسول اللہ آلوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ھیں۔فرمایا مجھے اْن کے پاس لے چلو۔پھر اٹھنے جا ارادہ فرمایا لیکن اْٹھ نہ پائے۔رسالت مآب پر سات مشکیزہ پانی بہایا گیا۔تب سہارا لیکر منبر پر تشریف لائے۔یہ آقائ دو جہاں رحمت العالمین ،خضور نبء کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ تھا۔
فرمایا تمہیں میری موت کا خوف ھے۔
اے لوگو! تم سے میری ملاقات دنیا میں نہیں خوض کوثر پر ھوگی۔اے لوگو نماز کے معاملہ میں اللہ سے ڈرنا۔
اے لوگو!عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرنا۔آگاہ رھو : میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔
پھر فرمایا اللہ تعالی نے اپنے بندے جو اختیار دیا ھے۔اس نے اختیار کر لیا ھو اس کی بارگاہ میں ھے۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی سمجھ گئے رونے لگے کہ اب یار کی جدائی کا وقت آن پہنچا ھے۔کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان۔میرے بچے آپ پر قربان۔پھر امامت کے لئے آپ نے ابوبکر کو مقرر فرمائیآمین۔ فرمایا میں نے سب کے بدلے چکا دئیے ابوبکر کا بدلہ اللہ پر چھوڑ دیا۔مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دئیے جائیں سوائے ابوبکر کے دروازہ کے۔
فرمایا لوگو! قیامت تک آنے والے میرے ہر امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔ پھر آپ کو سہارا دے کر گھر لے جایا گیا۔

12 ربیع الاول سوموار کے روز فجر کے وقت پردہ اٹھا کر صحابہ کو دیکھا۔چہرے پر بشارت آگئی۔ ابوبکر پیچھے ہٹنے لگے تو اشارہ سے منع فرمایا۔ اور پردہ چھوڑ دیا۔ مزاج اقدس کچھ بہتر ھوا تو مسواک فرمائی۔
پھر اللہ کے خضور پی کے۔ وفات سے قبل اْمت کا غم ، غریبوں کی فکر۔
ھمارے علمائ کرام سیرت رسول اللہ بیان کرنے کی بجائے، میلاد منانا جائز ھے ناجائز کی تاویلیں پیش کرتے ھیں۔ ایک طبقہ کہتا ھے کہ اصحاب رسول نے یہ دن نہیں منایا۔ دوسرا طبقہ کہتا ھے کہ فلاں بزرگ نے یہ دن منایا۔پھر بڑے بڑے کیک جن پر روضہ رسول بنا ھوتا ھے۔ یا (محمد) صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ھوتا ھے اْس کیک کو کاٹا جاتا ھے۔ جسے عشق مصطفے۔ حْب رسول اور عقیدت مصطفے کا نام دیا جاتا ھے۔
کچھ خضرات کہتے ھیں کہ اگر ھم اپنے بچوںْکو برتھ ڈے مناتے ھوئے کیک کاٹ سکتے ھیں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کا کیک کیوں نہیں کاٹ سکتے۔
لیکن رسول اکرم بعثت کا مقصد تھا۔ جس کے لئے انہیں کائنات کا سرشار اور نبیوں کا امن بنا کر بھیجا گیا۔ اْسے ھم بیان کرنے سے قاصر رھتے ھیں۔ منع رسول پر زور زور سے ایکدوسرے کے عقائد کو غلط کہنا اور اپنے عقیدہ کو درست ثابت کرنے کے علاوہ۔ حب رسول اور عقیدت رسول کہیںْ نہیں آتی۔ شیعہ خضرات خضرت حسین رضی اللہ تعالی کی شبیہ ، ذوالجناح کی تشبیہ اور معرکہ کرب و بلا کو فلماتے ھیں۔ یہ چیز غیر مسلم اور دوسرے مذاہب کو اسلام کے قریب لانے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ ھمیں اصحاب رسول کے طریقہ محبت کو اپنانا چاہئے۔
ھم رسول اللہ کی سیرت کم بیان کرتے ھیں۔میلاد کی مخافل دوسروں کو criticized کرنے کی رسم بن چکی ھے۔
جیسے شیعہ ذاکرین محرم میں دوسرے مسالک پر ، اصحاب رسول پر تبرا کرتے ھیں۔
ویسے ھی جوشیلے علمائ دوسرے مسالک پر کیچڑ اچھال کر خلیج پیدا کرتے ھیں۔ اور دوسروں کو گستاخان رسول قرار دیکر اتحاد و اتفاق میں نفرت کے بیج بوجاتے ھیں۔میرے پیارے نبی کے لئے صرف ایک مہینہ ھی کیوں۔ سارا سال اْنکی عقیدت ، ایک ایک لمحہ خضور اقدس کی محبت کے لئے ھے۔ ھم جھوٹ بولتے ھیں ، دھوکہ دیتے ھیں، نماز نہیں پڑھتے ، رشتوں کی پروا نہیں کرتے۔ لیکن عشق مصطفے کے نعرے ببانگ دْہل لگاتے ھیں سمجھتے ھیں کہ شفاعت نبوی کے لئے یہی کافی ھے۔
ھمارے کچھ دوست میلاد کے جلوسوں کو ایسے پیش کرتے ھیں جیسے حج کیطرح فرض ھے۔ بارہ ربیع الاول کے جلسے اور جلوسوں میں
رسول خدا کی سنت نظر آنی چاہئے۔
اس دن کو رسول اللہ کی سیرت اور فرامین کو اْجاگر کرنا چاہئے تاکہ ھماری نوجوان اور آنے والی نسلوں کو رسول اللہ کی تشریف آوری کے مقاصد ،انسانیت سے محبت اور ھمارا دنیا میں آنے کی مقاصد کی وضاحت ھوسکے۔جو کردار خضرت انسان کو سونپا گیا ھے اْس سے آگہی پیدا ھو۔ تاکہ ھم اس دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے اپنی زندگیوں کو سنوار سکیں۔
کیک کاٹنے جیسی بدعات ،اور قوالیوں پر رقص یہ میرے آقا کی سنت نہیں ھے۔ھمیں وہ جام کرنا چاہئے کہ دیار غیر میں غیر مسلم ھماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و کردار سے متاثر ھوکر دائرہ اسلام میں آئیں۔سٹی لیول پر سیرت رسول پر ایک مضبوط سیمنار کا انعقاد کرنا چاہئے غیر مسلم لیڈرز ، چرچ اور سینیگال سے متعلقین کو دعوت دینی چاہئے ایسے پروگرامات میں حیات طیبہ پر سیر حاصل گفتگو ھو۔ جو دوسرے مذاہب پر اثر چھوڑے۔ پردیس میں ھم اسلام کے سفیر ھیں۔ ھمارے کردار سے متاثر ھو کر لوگ اسلام کیطرف آئیں۔ محسوس کریں کہ جس نبء کو یہ مانتے ھیں وہ انسانیت کے ایمبیسڈر تھے۔ غریبوں کے ملجائ تھے۔ مظلوم کے ساتھی تھے۔ محروم کی ڈھال تھے۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زندگی کا مقصد عبادت خدا کی۔ اطاعت مصطفے کی خدمت مخلوق خدا کء تھا۔اللہ رب العزت ھمیں آقائ دو جہاں کی سیرت کو اپنانے کی توفیق عطائ فرمائے آمین
شبیراحمدگل

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here