رسول خدا کی ایک سو اخلاقی صفات

0
172
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

1۔چلتے تو آرام ،سکون اور پْر وقار انداز اختیار فرماتے۔
2۔چلتے وقت زمین پر پیر گھسیٹ کر نہیں چلتے تھے۔
3۔ ہمیشہ اپنی نگاہ نیچے رکھتے۔
4۔ سلام کرنے میں پہل فرماتے ،کوئی سلام کرنے میں آپۖ سے سبقت نہ پاتا تھا۔
5۔ کوئی مصافحہ کرتا تو اْس کے ہاتھ کھینچنے سے پہلے اپنے ہاتھ کو اْس کے ہاتھ سے کھینچتے نہیں تھے۔
6۔ کوئی کے ساتھ اس طرح پیش آتے کہ وہ گمان کرتا تھا کہ مجھ سے زیادہ انہیں کوئی عزیز نہیں ہے۔
7۔ جب کسی کی طرف دیکھتے تو بادشاہانہ انداز اختیار نہیں فرماتے تھے۔
8۔ہرگز لوگوں کے چہرے کی طرف آنکھیں لگا کر نہیں دیکھتے تھے۔
9۔ اشارہ کرتے تو ہاتھ سے کرتے ،کبھی آنکھ یا آبرو سے اشارہ نہ کیا۔
10۔ تادیر خاموش رہتے ،جب تک ضرورت نہ ہوتی لبوں کو جنبش نہیں دیتے تھے۔
11۔ جب کسی سے بات کرتے تو اْس کی بات کو پوری توجہ سے سماعت فرماتے۔
12۔ جب کسی سے بات کرتے تو اس کی طرف متوجہ رہتے ،ادھر اْدھر توجہ نہ فرماتے۔
13۔ کسی کے ساتھ بیٹھتے تو جب تک وہ نہیں اٹھتا ،آپۖ اٹھنے میں پہل نہیں فرماتے تھے۔
14۔ کسی محفل میں اٹھتے ،بیٹھتے نہیں تھے مگر یہ کہ خدا کو ضرور یاد کرتے تھے۔
15۔ جب کسی محفل میں جاتے تو آخر میں بیٹھ جاتے ،کبھی صدر مجلس میں بیٹھنے کی خواہش نہ رکھی۔
16۔ مجلس میں اپنے لیے جگہ مخصوص نہیں کرتے تھے ،اور ایسا کرنے سے منع فرماتے تھے۔
17۔ لوگوں کی موجودگی میں کبھی تکیہ نہیں لگاتے تھے۔
18۔ آپۖ اکثر قبلہ رخ ہو کر بیٹھتے تھے۔
19۔ جب کسی ناپسندیدہ شے کو دیکھتے تو اسے ان دیکھا قراردے دیتے تھے۔
20۔ اگر کسی سے غلطی ہو جاتی تواسے نقل نہیں کرتے تھے۔
21۔ کسی کوبات کرنے میں غلطی یالغزش ہوجاتی تو اس کا مؤاخذہ نہیں فرماتے تھے۔
22۔ کسی سے جدل اور جھگڑا نہیں کرتے تھے۔
23۔ کسی کی بات کو کاٹتے نہیں تھے،مگر یہ کہ وہ فضول بات ہوتی۔
24۔ سوال کے جواب کا چند بار تکرار کرتے تاکہ سائل پر جواب مشتبہ نہ ہوجائے۔
25۔ کسی سے غلط بات سنتے تو نہیں فرماتے تھے کہ فلاں نے یہ کیوں کہاہے ،بلکہ فرماتے کہ بعض لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس طرح کہہ رہے ہیں۔
26۔ غریبوں کے ساتھ زیادہ اٹھتے بیٹھتے تھیاور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا لیتے تھے۔
27۔ غلاموں کی دعوت کو بھی قبول کرلیتے تھے۔
28۔ ہدیہ قبول کرتے ،اگرچہ ایک گھونٹ دودھ ہی ہو۔
29۔صلہ رحمی میں سبقت فرماتے تھے۔
30۔ اپنے رشتہ داروں پر احسان کرتے ،بغیر اس کے کہ انہیں دوسروں پر برتری دیں۔
31۔ نیک کام کی تعریف اور تشویق دلاتے اور برے کام کی مذمت اور اس سے منع فرماتے تھے۔
32۔ جس چیز میں لوگوں کی دین و دنیا کی مصلحت ہوتی ،اس کے کرنے کا کہتے اور مکرر فرماتے کہ یہ بات جو موجود لوگ مجھ سے سن رہے ہیں ،غیر موجود لوگوں تک پہنچائیں۔
33۔ جو عذر پیش کرتا ،اْس کے عذر کق قبول کرتیتھے۔
34۔ ہرگز کسی کو حقیر شمار نہیں کرتے تھے۔
35۔ ہرگز کسی کو گالی نہیں دیتے تھییا برے لقب سے نہیں پکارتے تھے۔
36۔ ہرگز اپنے اطراف والوں اور متعلقین سے نفرت نہیں کرتے تھے۔
37۔ ہرگز لوگوں کے عیب کی جستجو نہیں کرتے تھے۔
38۔ لوگوں کے شر سے بچتے لیکن ان سے کنارہ کشی نہیں کرتے تھے،سب سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔
39۔ کبھی لوگوں کی مذمت نہ کرتے تھے اور ان کی زیادہ تعریف بھی نہیں کرتے تھے۔
40۔ دوسروں کی جسارت پر صبر کرتیتھے،اور برائی کا نیکی سے بدلہ دیتے تھے۔
41۔ بیماروں کی تیمارداری کرتے تھے، اگرچہ وہ مدینہ میں دور رہتاہوتا۔
42۔اپنے صحابہ کا خیال رکھتے تھے اور ہمیشہ ان کا حال چال پوچھتے رہتے تھے۔
43۔ اپنے صحابہ کو بہترین نام سے آواز دیتے تھے۔
44۔ کاموں کی بابت اپنے صحابیوں سے بہت مشورہ کرتے تھیاور انہیں مشاورت کرنے کی تاکید کرتے رہتے تھے۔
45۔ اپنے صحابہ میں دائرہ بناکر بیٹھتے تھے ،اس طرح گھل مل کر بیٹھے ہوتے کہ اگر اجنبی آجاتاتو وہ جان نہیں پاتا تھا کہ ان میں ان کا پیغمبر کون سا ہے۔
46۔اپنے صحابہ کے درمیان انس و محبت برقرار فرماتے تھے۔
47۔اپنے عہد و پیمان کے پکے شخص تھے۔
48۔جب کسی فقیر کو کچھ دیتے تو اپنے ہاتھ سے دیتے تھے ،کسی دوسرے کے ذریعہ سے نہیں دیتے تھے۔
49۔اگر نماز کی حالت میں ہوتے اور کوئی آپ? سے ملنے آجاتا تو اپنی نماز کو مختصر کردیتیتھے۔
50۔ اگر نماز کی حالت میں ہوتے اور کوئی بچہ رونے لگتا تو اپنی نماز کو مختصر کردیتے تھے۔
51۔آپ? کے نزدیک لوگوں میں سے عزیز ترین شخص وہ تھاجو دوسروں کو زیادہ فائدہ دیتا تھا۔
52۔ آپ? کی بارگاہ سے کبھی کوئی مایوس اور ناامید نہ ہوا، آپ? فرماتے تھے کہ میرے پاس اس کی حاجت لے آؤ کہ جو مجھ تک اپنی حاجت پہنچا نہیں سکتا۔
53۔ اگر کوئی آپ? سے حاجت رکھتا ہوتا اگر مقدور ہوتی تو اسے پورا فرمادیتے وگرنہ اسے خوش کن بات سے اور اچھے وعدہ سے راضی کرتے۔
54۔ کبھی کسی کی درخواست کو رد نہ فرمایا،مگر یہ کہ اس کی درخواست گناہ پر مشتمل ہوتی۔
55۔ بڑی عمر والوں کا بڑا احترام کرتے اور چھوٹوں سے بہت شفقت فرماتے تھے۔
56۔ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔
57۔ شریر لوگوں کے دل اْن کے ساتھ اچھائی کرکے جیت لیتے اور اْنہیں اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔
58۔ ہمیشہ مسکراتے رہتے، حالانکہ آپ? کے دل میں خوف خدا بہت زیادہ ہوتاتھا۔
59۔ جب خوش ہوتے تو آنکھیں بند کر لیتے زیادہ خوشی کااظہار نہیں فرماتے تھے۔
60۔ آپ? کا ہنسنا زیادہ تر مسکراہٹ سے ہوتاتھا،کبھی ہنسنے کی آواز بلند نہ ہوتی۔
61۔ مذاق کرتے لیکن اس سے فضول بات نہیں کرتے تھے۔
62۔ برے نام کو تبدیل کردیتے تھے اور اس کی جگہ پر اچھے نام کو قراردیتے تھے۔
63۔ آپ? کی بردباری آپ? کے غصے پر سبقت لے جاتی تھی۔
64۔ دنیا کی کوئی شے ہاتھ جاتی رہتی تو اس پر افسوس نہیں کرتے تھے، اور غصہ بھی نہیں کرتے تھے۔
65۔خدا کی خاطر اس قدر خشمگین ہوتے کہ کوئی انہیں پہچان نہ سکتا۔
66۔کبھی اپنے لیے انتقام نہ لیا،مگر یہ کہ حریم حق کو توڑ ڈالا گیا ہو۔
67۔ جھوٹ سے بڑھ کر آپ ? کے نزدیک کوئی بری صفت نہیں تھی۔
68۔ خوشی و غمی کی حالت میں زبان پر صرف خدا ہی کاورد رہتا تھا۔
69۔ کبھی اپنے پاس درہم و دینار کو ذخیرہ کرکے نہیں رکھا۔
70۔ کبھی اپنا کھانا اور اوڑھنا اپنے غلاموں سے بہتر قرارنہیں دیا۔
71۔ زمین پر بیٹھتے اور زمین پر بیٹھ کے کھاتیتھے۔
72۔ زمین پر ہی سوتے تھے۔
73۔ اپنی جوتی اور کپڑوں کو خود ہی پیوند لگاتیتھے۔
74۔ اپنے ہاتھوں سے دودھ دھتے اور اپنے اونٹ کے پیر کو خود باندھتے تھے۔
75۔ جوسواری ملتی اس پر سواری کرلیتے تھے۔
76۔جہاں جاتے عبائ کو بچھونے کے طور پر استعمال کرلیتے تھے۔
77۔ زیادہ تر سفید لباس زیب تن فرماتیتھے۔
78۔ جب نیا لباس خرید کرتے تو پہلے والا کسی فقیر کودے دیتے تھے
79۔فاخرہ لباس جمعہ کے دن استعمال کرتے تھے۔
80۔ جوتی اور لباس پہنتے وقت دائیں طرف سے آغاز کرتے تھے۔
81۔ بغیر کنگی کے پریشان بالوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔
82۔ ہمیشہ خوشبو لگاتے اور عطر کی خرید پر زیادہ خرچ فرماتے تھے۔
83۔ ہمیشہ باوضو رہتے اور وضو کے وقت مسواک کرتے تھے۔
84۔آپ? کی آنکھوں کی روشنی نماز میں تھی ،اپنا آرام اور سکون نماز ہی میں رکھتے تھے۔
85۔ ہر ماہ کی تیرہ،چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔
86۔ کبھی نعمت کی مذمت نہیں کرتے تھے۔
87۔ خداوند کی چھوٹی سی نعمت کو بڑا سمجھتے تھے۔
88۔ کبھی کھانے کی تعریف نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کھانے کی مذمت کرتے تھے۔
89۔ کھانے کے موقع پر جو چیز حاضر کی جاتی تناول فرمالیتے تھے۔
90۔ دسترخوان پر سے اپنے سامنے پڑی غذا ہی کو کھالیتے تھے۔
91۔ کھانے کے وقت سب سے پہلے دسترخوان پر تشریف لاتے اور سب سے آخر میں ختم کرتے تھے۔
92۔جب تک بھوک نہ لگتی کھانا نہیں کھاتے تھیاور سیر ہونے سے پہلے کھانا تناول کرنا چھوڑ دیتے تھے۔
93۔ آپ? کے معدہ نے کبھی دو کھانوں کو اپنے اندر جمع نہیں کیا ،
94۔ کھانے کے دوران کبھی معدہ سے ہوا خارج نہیں کرتے تھے۔
95۔ جہاں تک ممکن ہوتا کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے۔
96۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوتے اور چہرے پر پھیرتے تھے۔
97۔ پانی کو تین گھونٹ سے پیتے تھے اول میں بسم اللہ اور آخر میں الحمدللہ کہتے۔
98۔پردہ نشین جوان لڑکیوں سے زیادہ با حیائ تھے۔
99۔ گھر میں داخل ہوتے وقت تین دفعہ اجازت لیتیتھے۔
100۔گھر میں اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے:خداکیلیے،اہل خانہ کے لیے،اپنے لیے !
اور اپنے والے وقت کو بھی لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔
حوالہ: کتاب منتہی الآمال تالیف محدث قمی? اور کتاب مکارم اخلاق تالیف مرحوم طبرسی?۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here